دنیا میں مومن مصیبتیں اور تکلیفیں برداشت کرنے اور جنتی نعمتوں تک فی الحال نہ پہنچ پانے کی وجہ سے قیدخانہ میں زندگی بسر کررہا ہے جس میں اسے سکون کی توقع نہیں ہونی چاہیے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "الدُّنيا سِجنُ المؤمنِ، فأيُّ سِجنٍ جاءَ مِنهُ خيرٌ"(بحارالانوار، ج۶۸، ص۲۲۱)، دنیا مومن کا قیدخانہ ہے، تو کون سا قیدخانہ ہے جس سے کوئی خیر ملے"۔ علامہ مجلسی (علیہ الرحمہ) حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی اس روایت کی تشریح کرتے ہوئےتحریر فرماتے ہیں: "اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن کے لئے مناسب ہے کہ دنیا میں سکون کی توقع نہ رکھے"۔ مزید وضاحت یہ ہے کہ اس روایت کو مختلف پہلووں سے دیکھا جاسکتا ہے:
۱۔ مومن اکثر اس دنیا میں طرح طرح کی تکلیفیں اور مصیبتیں برداشت کرتا ہے تو جہاں تکلیفیں، صعوبتیں اور رنج و الم ہوں وہاں سکون کیسا۔
۲۔ مومن کی جو دنیا میں زندگی ہے اگر اسے اس کے آخرت کے مقام سے اور جو نعمتیں اس کے لئے آخرت میں تیار کی گئی ہیں، ان سے موازنہ کیا جائے تو دنیا اس کے لئے قیدخانہ کی طرح ہے، کیونکہ وہ دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی عظیم نعمتوں تک نہیں پہنچ پارہا۔ مثال کے طور پر دنیا میں رہتے ہوئے حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) اوراہل بیت (علیہم السلام) سے ملاقات نہیں کرپارہا تو یہ قیدخانہ میں ہے۔ جب اس قیدخانہ سے آزاد ہوگا تو آخرت میں ملاقات کرپائے گا۔
۔۔۔۔۔۔
(بحارالانوار، الشيخ محمّد باقر بن محمّد تقي المجلسي، الناشر: مؤسسة الوفاء، الطبعة: ٢، ١٤٠٣ هـ.ق)
Add new comment