خلاصہ: انسان کا عمل بتادیتا ہے کہ اس کی نیت کیا تھی، جتنی نیت بہتر ہو اتنا عمل بہتر ہوگا، لہذا ہر انسان جو عمل انجام دیتا ہے اپنی نیت کے مطابق انجام دیتا ہے، یعنی جو کچھ کررہا ہے، اس کی نیت یہی تھی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انسان جب کسی کام کو انجام دینے کے بارے میں سوچتا ہے تو اس کی سوچ کئی طرح کی ہوسکتی ہے: ۱۔اس کام اور عمل کو بس انجام دیدے۔ ۲۔اس کام کو بہتر طریقہ سے انجام دے۔ ۳۔اس کام کو بہتر سے بہتر طریقہ سے انجام دے۔ ان تینوں سوچوں میں مشترکہ بات یہ ہے کہ کام تو ہو ہی جائے گا، لیکن فرق یہ ہے کہ صرف کام کا ہوجانا کافی نہیں، بلکہ اس کو بہترین شکل میں انجام دینا بھی مقصد میں شامل ہے۔ لیکن بہترین شکل میں تب انجام دے سکتا ہے کہ اس بات پر غور کرے اور اس کو بہترین شکل میں انجام دینے کی نیت کرے یعنی بہترین شکل میں انجام دینے کا پختہ ارادہ کرے، ورنہ عمل انجام ہوجائے گا، لیکن بہترین شکل میں نہیں، جیسے مہمان کے لئے جیسا کھانا تیار کردیا جائے تو مہمان اسے کھا لے گا، لیکن میزبان کی محبت، خلوص اور نیک نیت تب ثابت ہوگی جب بہترین شکل میں بنائے اور اس کا عمل اس کی نیت کی حقیقت کو واضح کردے گا۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "النِّيَّةُ أفضَلُ مِن العَمَلِ، ألا و إنّ النِّيَّةَ هِيَ العَمَلُ ـ ثُمّ تلا قَولَهُ تعالى: ـ »قُلْ كُلٌّ يَعْمَلُ على شاكِلَتِهِ «يَعني على نِيَّتِه "(وسائل الشيعة، ج۱، ص۵۱)، "نیت، عمل سے افضل ہے، جان لو نیت وہی عمل ہے، پھر آپؑ نے اللہ کے اس کلام کی تلاوت فرمائی: »آپ کہہ دیجئے کہ ہر ایک اپنے طریقہ پر عمل کرتا ہے«، یعنی اپنی نیت پر"۔ لہذا عمل بتادیتا ہے کہ یہی تو نیت تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔
(وسائل الشيعة، محمد بن الحسن الحرّ العاملي، المحقق: مؤسسة آل البيت عليهم السلام لإحياء التراث ـ قم، المطبعة: ستاره)
Add new comment