دنیا اور انسان نہج البلاغہ کے آیئنہ میں

Sun, 04/16/2017 - 11:17

خلاصہ: نھج البلاغہ حقیقت میں انسان شناسی کی کتاب ہے جسمیں امیرالمومنین کی سیرت طیبہ کی روشنی میں سعادت مند زندگی گزارنے کے آداب، نیز دنیا اور انسان میں موجودہ گہرے رابطے کو نہایت خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے

دنیا اور انسان نہج البلاغہ کے آیئنہ میں

گزشتہ سے پیوست ۔۔ قسط نمبر 2

انسان ایک پیچیدہ اور ناشناختہ مخلوق
مادہ پرستوں کی نارسائی کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں لیکن ان غلط تاویلات کی بنیادی وجہ اس حقیقت سے ان کی چشم پوشی ہے کہ مادی ترقی اور علمی اور سائنسی پیشرفت کے باوجود انسان بذاتِ خود اپنی زندگی گزارنے کی صحیح روش کے تعین سے قاصر ہے۔ یہ اْس بچے کی مانند ہے جو ضرر رسانی اور راحت رسانی سے بےخبری کے سبب ہر شئے کی جانب لپکتا ہے۔ ایک مشہور امریکی نژاد فرانسیسی سائنس داں نے اس حقیقت کے اعتراف میں’’انسانِ نامعلوم’’ نامی کتاب تصنیف کی ہے اور بتایا ہے کہ ’’انسان کے بارے میں ہمارا علم نہ ہونے کے درجہ میں ہے(1)

 اور درحقیقت انسان کے بارے میں ہم بڑی گھمبیر جہالت میں مبتلا ہیں۔ نوبل انعام یافتہ الیکس کارل نامی اس سائنس داں نے اپنی پوری عمر جدید علمِ طب (Modern Medical sceince) کی حصولیابی نیز تجربہ گاہوں میں ان علوم کے تجزیہ و تحلیل اور عملی تطبیق پر صرف کی۔ میڈیکل سائنس کے چند ایک شعبوں میں انہوں کے کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ جدید سائنسی علوم کے ذریعے اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر انسان کے متعلق حیرت انگیز انکشافات کرنے والا یہ سائنس داں بالآخر اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ موجودہ دور کا ترقی یافتہ انسان اپنے بارے میں جتنا کچھ بھی جانتا ہے وہ نا ہو نے کے برابر ہے۔ یہ عظیم مفکر اور سائنسدان اپنی کتاب [The Unknown Man] میں مزید لکھتا ہے۔ "ممکن ہے کہ انسان اس وسیع کائنات کے ہر گوشہ و کنار پر اپنی ہمہ دانی کا تصرف جما دے اور بہت سی نامعلوم کائناتوں کو دریافت کرے لیکن اس کا اپنا وجود ہمیشہ اس کے لئے چیستان ہی رہے گا‘‘۔(2) علامہ اقبال بھی الیکس کارل کی یوں تائید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
محرم نہیں فطرت کے سرودِ اذلی سے
بینائے کواکب ہو کہ دانائے نباتات
دراصل عہد جدید کا انسان حیرت انگیز سائنسی انکشافات سے خود فریبی میں مبتلا ہوا ہے کہ اْس نے زمین سے ہزاروں میل دور ستاروں پر کمند ڈالی ہے نیز وہ فطرت کو مکمل طور مسخر کرنے کے لئے پر تول رہا ہے لہذٰا وہ اپنے آپ کے بارے میں نیک و بد، سود و زیاں، نجات و ہلاکت، غرض روش زندگی (Life۔Pattern) کے لئے مذہب وغیرہ کا محتاج کیوں رہے؟ حالانکہ ان مادی چیزوں پر دسترس سے انسان کے روحانی و نفسیاتی پیچیدگیوں کی گرہیں ہرگز ڈھیلی نہیں پڑتیں۔ اس سلسلے میں ایک بار پھر علامہ اقبال سے رجوع کرتے ہیں۔

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا

اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا

جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا (3  )

اعتراض کا جواب:
مختصر سی تمہیدی وضاحت کے بعد مادہ پرستوں اور شہوت پرستوں کے اعتراضات کی روشنی میں پیدا ہونے والے سوالات کا اسلامی نقطۂ نظر سے جواب بآسانی ڈھونڈھا جا سکتا ہے۔ انسان اپنی نفسانی پیچیدگیوں سے ناواقفیت اور فطرتِ انسانی کے سربستہ اسرار تک نارسائی کی بنیاد پر ہرگز اس بات کا حقدار نہیں ہے کہ وہ اصولی اور الٰہی قوانین سے قطع نظر اپنی نفسانی خواہشات کو اپنی مرضی کے مطابق پورا کرے اور نہ وہ فطری خواہشات کی تکمیل اور تشفی کے لئے اپنے آپ ہی حدود معین کر سکتا ہے۔ اپنی ذات و وجود کے حوالے سے جہالت کے پیشِ نظر انسان اْس طفلِ ناداں کی مانند کسی دانا و بینا ہستی کی سرپرستی اور ہدایت کا محتاج ہے۔ جسے قدم قدم پر والدین یا سرپرستوں کی ہدایت و سرپرستی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے سلسلے میں اخلاقی ضوابط کو سنگِ راہ تصّور کرنے والوں سے پوچھا جا سکتا ہے کہ وہ چھوٹے بچے کی ہر جائز و ناجائز خواہش کو پورا کرنے میں اپنے ہی ہاتھوں وضع کردہ مادر پدر آزادی کے قائل کیوں نہیں ہیں؟ یہ بچہ بھی تو فطری رحجان کے مطابق ہر چمکیلی چیز کی جانب لپک پڑتا ہے۔ چاہے وہ ہاتھ جلا دینے والا انگارا ہی کیوں نہ ہو؟ جنسی خواہشات اور مادہ پرستی کی تسکین کی خاطر انسان کو مکمل طور آزاد چھوڑ دینے کے حامی اس آوارگی کے برے نتائج کو زائل کرنے کیلئے مختلف اقدامات اٹھانے کے حق میں ہیں۔ کیا ان سے یہ مطالبہ اسی اصول کے تحت نہیں کیا جا سکتا ہے کہ طفلِ شیر خوار کو بھی اس کی فطری خواہش کے مطابق کسی ضرر رساں چیز کو ہاتھ میں لینے سے قطعاً روکا نہ جائے بلکہ بعد میں اْس چیز کی ضرر رسانی کا ازالہ کیا جائے۔ مثلاً ضوفشاں انگارے کو دیکھ کر فطری طور ایک ناسمجھ بچہ اس کی جانب لپکتا ہے۔ اْس کی فطری خواہش کو پورا ہونے میں اْس کے والدین یا سرپرست کیوں بیچ میں حائل ہو جاتے ہیں؟ اسی اصول کے مطابق فطری خواہش کو پورا ہونے دیا جانا چاہیئے اور پھر اْس کے برے نتیجے یعنی ہاتھ جل جانے کا تدارک کیا جانا چاہیئے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔   ( جاری ہے)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منابع:
1:تہذیبِ جدید کے مسائل اور ان کا اسلامی حل۔۔ ص۔۔ ۴۱سید قطب شہید۔
2: The Man-unknown By Dr. Alexis Carrel Published by Happer and Brothers
3: ضربِ کلیم ص۔۹۶ علامہ اقبال
4: سورہ دہر آیت 2،3

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
6 + 8 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 49