خلاصہ: ائمہ(علیہم السلام) ہر ممکنہ صورت حال میں امت کی ہدایت فرمائی ہے، اس مضمون میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ امام حسن عسکری(علیہ السلام) نے قید کی حالت میں بھی کس طرح لوگوں کی ہدایت فرمائی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
معتدعباسی جب تخت خلافت پر پہونچا اور اس نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو اس نے بھی اپنے آباء و اجداد کی طرح اس بات کی کوشش شروع کردی کہ آل محمد(علیہم السلام) کے وجود سے زمین خالی کردی جائے، اس نے حکم دیاکہ امام حسن عسکری( علیہ السلام) کو قید کردیا جائے اور انہیں قید میں کسی قسم کا سکون نہ دیا جائے۔ امام(علیہ السلام) کو بغیر کسی غلطی کے قیدخانہ میں بھیج دیا گیا اور آپ پر علی ابن اوتاش نامی ایک ناصبی مسلط کردیا گیا جو آل محمد(علیہم السلام) کے سخت دشمنوں میں سے تھا اور اس سے کہہ دیا گیا کہ جو جی چاہے کرو، تم سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ابن اوتاش نے حسب ہدایت آپ پر طرح طرح کی سختیاں شروع کردیں۔ اس نے نہ خدا کا خوف کیا نہ پیغمبر کی اولاد ہونے کا لحاظ کیا۔
لیکن آپ کے زہد اور تقوی کی وجہ سے دو چار ہی دن میں دشمن کا دل موم ہوگیا اور وہ حضرت کے پیروں پر گرگیا، آپ کی عبادت اور تقوی و طہارت دیکھ کر وہ اتنا متاثر ہوا کہ حضرت کی طرف نظر اٹھا کر دیکھ نہیں سکتا تھا، آپ کی عظمت و جلالت کی وجہ سے سرجھکا کر آتا اور چلا جاتا یہاں تک کہ وہ وقت آگیا کہ دشمن، بابصیرت بن کر آپ کا معترف اور ماننے والا ہوگیا[۱]۔
امام(علیہ السلام) نے اپنی عبادت کردار اور رفتار کے سب کو سیدھے راستہ کی ہدایت فرمائی چاہے وہ دوست ہو یا دشمن۔
ابوہاشم داؤد ابن قاسم کا بیان ہے کہ میں اور میرے ہمراہ حسن ابن محمد القتفی اور محمد ابن ابراہیم عمری اور دیگر بہت سے حضرات اس قیدخانہ میں آل محمد(علیہم السلام) کی محبت کے جرم کی سزا بھگت رہے تھے کہ ناگاہ ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے امام حسن عسکری(علیہ السلام) بھی تشریف لارہے ہیں۔ ہم نے ان کا استقبال کیا، وہ قیدخانہ میں ہمارے پاس آکر بیٹھ گئے اور بیٹھتے ہی ایک اندھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اگر یہ شخص نہ ہوتا تو میں تمہیں یہ بتادیتا کہ اندرونی معاملہ کیا ہے اور تم کب رہا ہوگے، لوگوں نے یہ سن کر اس اندھے سے کہا کہ تم ذرا ہمارے پاس سے چند منٹ کے لیے ہٹ جاؤ، چنانچہ وہ ہٹ گیا، اس کے چلے جانے کے بعد آپ نے فرمایا: یہ نابینا قیدی نہیں ہے بلکہ حکومت کا جاسوس ہے، اس کی جیب میں ایسے کاغذات موجود ہیں جو اس کی جاسوسی کا ثبوت دیتے ہیں، یہ سن کر لوگوں نے اس کی تلاشی لی اور واقعہ بالکل صحیح نکلا[۲]۔
امام حسن عسکری(علیہ السلام) چاہے آزاد رہے ہوں یا قید خانہ میں، آپ نے ہمیشہ اپنے چاہنے والوں کو حکومت کے کارندوں سے نجات دلانے کی کوشش کی، کبھی مکاتبات کے ذریعہ تو کبھی کسی شخص کے ذریعہ پیغام کو بھیج کر اور کبھی کسی اور طریقہ سے، یہاں تک کہ امام(علیہ السلام) اپنے چاہنے والوں کو یہ بھی بتاتے تھے کہ حکومت کے کارندوں سے کب اور کس طرح ملاقات کرو۔
جس طرح امام حسن عسکری(علیہ السلام) اپنے چاہنے والوں کی مختلف طریقوں سے مدد فرمایا کرتے تھے اور ان کو مشکلات میں گرفتار ہونے سے بچایا کرتے تھے، آپ کے فرزند، امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) بھی اپنے چاہنے والوں کے ساتھ اسی طریقہ سے پیش آتے ہیں، بس ہم کو امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کا حقیقی چاہنے والا بننا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]۔ محمد باقر مجلسى، بحار الانوار، دار إحياء التراث العربي - بيروت، ج۵، ص۲۰۷، ۱۴۰۲ ق.
[۲]۔ فضل بن حسن طبرسى، إعلام الورى بأعلام الهدى (ط - الحديثة)، آل البيت(علیہم السلام) - قم، ج۲، ص۱۴۱، ۱۴۱۷ ق.
Add new comment