امام عسکری (علیہ السلام) اور فرقہ ثنویہ

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: امام حسن عسکری(علیہ السلام) نے اپنے زمانے میں مسلمانوں کو دین سے متعلق مخلتف شبہات سے بچایا، جن میں سے ایک ثنویہ کا شبہہ ہے، امام عسکری(علیہ السلام) نے لوگوں کو اس شبھہ سے بچایا اس مقالہ میں اس کو بیان کیا گیاہے۔

امام عسکری (علیہ السلام) اور فرقہ ثنویہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     ثنویہ ایک ایسا گروہ یا فرقہ ہے جو نور اور ظلمت کے قدیم ہونے کا قائل ہے، وہ کہتے ہیں کہ نور اور ظلمت ازلی ہے جیسا کہ مجوس قائل ہیں کہ ظلمت حادث ہے جبکہ نور قدیم ہے[۱]۔
     صاحب مجمع البحرین نے کہا ہے کہ ثنویہ ایک ایسا گروہ ہے جو قدیم کے ساتھ ایک اور قدیم کے قائل ہیں اور اسی پر اعتقاد رکھتے ہیں، یہ بھی کہا گیا ہے کہ ثنویہ اصل میں مجوس کا ہی ایک فرقہ ہیں اور وہ دو مبدأ اور منشا کے قائل ہیں، ایک مبدأ خیر کیلئے اور دوسرا مبدأ شر کیلئے، خیر کا مبدأ نور اور شر کا مبدأ ظلمت، یہ لوگ حضرت ابراہیم(علیہ السلام) کی نبوت کے قائل ہیں، ان کے بارے میں مزید یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ ہر مخلوق، خلقِ اوّل کی مخلوق ہے اس قول کے باطل ہونے کے لئے امام علی(علیہ السلام) کا یہ قول: «لَا مِنْ‏ شَيْ‏ءٍ كَانَ وَ لَا مِنْ شَيْ‏ءٍ خَلَقَ مَا كَان؛ نہ وہ کسی چیز سے ہیں اور نہ ہی وہ  کسی چیز سے پیداہوا»‏ کافی ہے، ثنویہ کا عقیدہ، امام(علیہ السلام) کے قول کے ذریعہ باطل ہوجاتا ہے۔[۲]۔
     عباسی دور کی تاریخ میں ہے کہ جب بھی کوئی خلیفہ کسی ایک اعتقادی مسلک سے منسلک ہو جاتا تھا تو اُس کے عقائد کے لحاظ سے مخالفت کرنے والے لوگ مختلف حیلوں اور بہانوں سے سزا اور اذيّت و آزار کے شکار ہو جاتے تھے یا ان کے قتل کے احکام جاری ہو جاتے تھے، اسی سلسلہ میں جب تاریخ کی طرف مراجعہ کرتے ہیں تو  ہم دیکھتے ہیں کہ امام عسکری(علیہ السلام)، ان سب حالات کے مقابلے میں بہترین الہٰی سیاست و تدبیر اختیار فرماتے تھے جیسا کے اس شبہہ کو ختم کرنے کے لئے امام(علیہ السلام) نے جو اقدام کیا۔
       امام حسن عسکری(علیہ السلام)  کے ایک صحابی سے منقول ہے کہ محمد ابن ربیع الشائی کا کہنا ہے: اہواز میں ایک شخص سے میرا واسطہ پڑا جو ثنویت کے عقیدے پر تھا، پھر میں سامرا گیا تو میرے دل میں اُس ثنوی شخص کی کچھ کچھ باتیں تھیں، میں احمد ابن خطیب کے گھر کے دروازے پر بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک امام حسن عسکری(علیہ السلام) تشریف لائے، میری طرف دیکھا اور انگشتِ شہادت کے ساتھ اشارہ فرمایا ''اَحَد اَحَد''امام(علیہ السلام )نے اس طرح سے محمد ابن ربیع کو سمجھایا کہ ثنویت ایک باطل عقیدہ اور مکتب ہے اور اُن کے عقائد اپنانا کفر ہے کیونکہ ثنویت توحید سے عدول کرنا ہے اور خداوند تبارک و تعاليٰ کے لیے شریک کاقائل ہونا ہے جبکہ خداوند سبحان ان سب باتوں سے پاک و منزہ ہے جو خلق اُس کیلیے قائل ہو رہی ہے[۳]۔
     ابو سہل بلخی کہتا ہے: ایک شخص جسکی والدہ مؤمنہ اور والد ثنوی تھا، اس نے امام حسن عسکری(علیہ السلام) سے درخواست کی کہ حضرت اس کے والدین کے لئے دعا فرمائیں، امام(علیہ السلام) نے صرف اس کی والدہ کی مغفرت کی دعا فرمائی۔[۴]
     امام(علیہ السلام) کے دعا کے اس انداز سے واضح ہو جاتا ہے کہ ثنویت امام(علیہ السلام) کی نگاہ میں باطل اور مردود ہے چاہے جس معنی میں بھی ہو اسی لئے امام(علیہ السلام) نے سائل کے والد کا ذکر ہی نہیں فرمایا[۵]۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]۔ شھرستانی، الملل و النحل،مصر، ج۱، ص۲۴۴۔ اس کو اس کتاب سے نقل کیا گیا ہے: علی اکبر جھانی، زندگی امام حسن عسگری(علیہ السلام)، چاپخانہ سپھر، ص۱۴۰، ۱۳۸۴ش۔
[۲]۔ فخر الدين طريحي، مجمع البحرين، مرتضوى - تهران، تیسری چاپ، ج۱، ص۷۸، ۱۲۷۵ش.
[۳]۔ محمد بن يعقوب كلينى، الكافي (ط - الإسلامية)، دار الكتب الإسلامية - تهران، چاپ: چهارم، ج۱، ص۵۱۱، ۱۴۰۷ ق.
[۴]۔كَتَبَ رَجُلٌ إِلَى أَبِي مُحَمَّدٍ يَسْأَلُهُ الدُّعَاءَ لِوَالِدَيْهِ وَ كَانَتِ الْأُمُّ غَالِيَةً وَ الْأَبُ مُؤْمِناً فَوَقَّعَ رَحِمَ اللَّهُ وَالِدَكَ وَ كَتَبَ آخَرُ يَسْأَلُ الدُّعَاءَ لِوَالِدَيْهِ وَ كَانَتِ‏ الْأُمُ‏ مُؤْمِنَةً وَ الْأَبُ ثَنَوِيّاً فَوَقَّعَ رَحِمَ اللَّهُ وَالِدَتَكَ وَ التَّاءُ مَنْقُوطَة۔محمد باقرمجلسى، بحار الأنوارالجامعة، دار إحياء التراث العربي - بيروت،دوسری چاپ، ج۵، ص۲۹۴، ۱۴۰۲ ق.
[۵]۔ علی اکبر جھانی، زندگی امام حسن عسگری(علیہ السلام)، چاپخانہ سپھر، ص۱۴۰، ۱۳۸۴ش۔

 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 3 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 17