خلاصہ: امام حسن عسکری(علیہ السلام) کے زمانہ میں جو شبہات موجود تھے ان امیں ایک شبھہ فرقہ واقفیہ کا تھا، امام عسکری(علیہ السلام) نے اس فرقہ کے بارے میں جو فرمایا ہے اس کو اس مضمون میں بیان کیا گیا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
امام حسن عسکری(علیہ السلام) سامراء میں تحت نظر رہنے اور حکومتِ وقت کی سختیوں میں گرفتار رہنے کے باوجود اپنی خاص حکمت عملی کے ذریعہ اُن کی سازشوں کو نقش بر آب فرمادیتے تھے اور اپنے شیعوں کی جانی، مالی اور عقیدتی لحاظ سے حفاظت فرماتے تھے اور اسی طرح معاشرے میں فساد کی روک تھام اور راہِ حق کے پرچار میں اپنا بھرپور کردار ادا فرماتے تھے۔ اُس دور کی بدعتوں اور انحرافات کے مقابلہ میں امام(علیہ السلام) راہِ حق کی حقانیت کو صاف و شفاف اور واضح فرمادیتے تھے۔
اس دور کی ایجاد ہونے والی بدعتوں میں سے ایک بدعت فرقہ ٔواقفیہ کی پیدائش تھی، واقفیہ کا اطلاق ایسے گروہ پر ہوتا ہے جو امام موسيٰ کاظم(علیہ السلام) کی شہادت کے بعد حضرت کی شہادت کے منکر ہوگئے اور حضرت امام رضا(علیہ السلام) کی امامت کا بھی انکار کرنے لگے اور حضرت امام موسيٰ کاظم(علیہ السلام ) کی امامت کے امر میں متوقف ہو گئے اس انکار کی وجوہات ان کی دنیاوی اور مادی خواہشات تھیں کیونکہ تاریخ میں مذکور ہے کہ امام موسی کاظم( علیہ السلام) کی شہادت کے بعد حضرت کے وکلاء کے پاس بہت زیادہ اموال موجود تھے اور ان پر لازم تھا کہ ان اموال کو بطور امانت ان کے بعد والے امام یعنی امام رضا( علیہ السلام )کے سپرد کردیں لیکن ان لوگوں نے ان اموال پر اپنا قبضہ جمانے کے لئے ایک ناقابل انکار حقیقت میں تحریف کرنے کی جسارت کی اور اس طرح امام موسی کاظم(علیہ السلام) کی شہادت کا انکار کردیا اور امام رضا(لیہ السلام) کی امامت کے بھی منکر ہو گئے اور دعویٰ کرنے لگے کہ امام موسيٰ کاظم(علیہ السلام) زندہ ہیں (غائب ہو گئے ہیں) اور بعد میں ظہور کریں گے[۱]، اس طرح اپنے اس جھوٹ کی وجہ سے امام موسی کاظم(علیہ السلام) کے اموال کو اپنے قبضے میں لے لیا[۲]۔
کہا جاتا ہے زیاد ابن مروان جو کہ اس گمراہ فرقہ کے بانیوں میں سے ایک تھا، امام موسی کاظم( علیہ السلام) کی شہادت کے موقع پر بیت المال کے ستر ہزار دینار اُس کے ہاتھ میں تھے، علی ابن ابی حمزہ اور عثمان ابن عیسيٰ کی بھی ایسی ہی صورتحال تھی، ان لوگوں کی یہ خیانت طول تاریخ میں بہت زیادہ لوگوں کو راہِ حق پر قائم رہنے کے لئے مانع ہوئی[۳]۔
احمد ابن مطہر کے بعض دوستوں نے حضرت امام حسن عسکری(علیہ السلام) سے واقفیہ اور ان کے توقف کے بارے میں سوال کیا کہ کیا وہ اُن لوگوں سے دوستی و تعلقات رکھیں یا ان سے بیزاری و برائت کا اظہار کریں؟ امام( علیہ السلام) نے جواب میں تحریر فرمایا: کیا تم اپنے چچا کے بارے میں رحمت کا سوال کرتے ہو؟ (اس کا چچا واقفیہ میں سے تھا)، خداوند متعال تمہارے چچا پر رحم نہیں کرتا اور اُس سے بیزار ہے اور میں بھی خداوند متعال کے یہاں ان سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں اور تم بھی ان لوگوں سے دوری اختیار کرو اور ان کے ساتھ تعلقات چھوڑ دو، ان کے جنازوں میں شرکت نہ کرو، ہرگز ان کی نماز جنازہ نہ پڑھو، وہ شخص جو امام کا انکار کرتا ہے یا ان کی تعداد میں ایک اور امام کا اضافہ کردیتا ہے، اُس کا امامت کا عقیدہ خداوند متعال کے یہاں قابل قبول نہیں ہے یہ شخص(عقیدے کے باطل ہونے میں) اس شخص کے مساوی و برابر ہے جو تثلیث کا قائل ہے، بے شک جو شخص بھی امامت کا انکار کرے یا ان کی معین تعداد میں اپنی طرف سے امام کا اضافہ کرے وہ اس کی مثل ہے جس نے ہماری امامت کا انکار کیا ہے[۴]۔
اس طرح امام حسن عسکری(علیہ السلام) نے ہر قسم کے حالات میں اور لوگوں کے افکار و عقائد میں تبدیلیاں آتے رہنے اور انواع و اقسام کی محدودیتوں اور سختیوں کے باوجود بے مثال صبر و استقامت اور تحمل کی وجہ سے اسلام ناب کو اور لوگوں کو مخلتلف شبہات سے دور رکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[۱]۔ محمد باقر مجلسى، بحار الأنوارالجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، دار إحياء التراث العربي - بيروت، دوسری چاپ، ص۱۰۸، ج۲۵۶، ۱۴۰۳ق.
[۲]۔ علی اکبر جھانی، زندگی امام حسن عسگری(علیہ السلام)، چاپخانہ سپھر، ص۱۴۸، ۱۳۸۴ش۔
[۳]۔ گذشتہ حوالہ، ص۱۴۹۔
[۴]۔ گذشتہ حوالہ، ص۱۵۰۔
Add new comment