چکیده:حجت خدا کی ذات ایسی ذات ہوتی ہے کہ انسان کیا، حیوانات بھی بھی آپ کے تئیں اطاعت ھذار ہوتے ہیں۔ بسا اوقات حیوانات، اطاعت حجت کی منزل میں بعض انسانوں سے بھی آگے نظر آتے ہیں۔ یہ واقعہ انھیں مثالوں میں سے ایک ہے۔
۔اے مرد خدا سے ڈر!
۔میں نے کیا کیا ہے؟
۔ اتنی اذیت انہیں مت دو۔
۔ کیا بول رہی ہو تم؟ وہ ہمارا دشمن ہے۔
۔اپنی زبان کو لگام دو، کیسا دشمن؟ وہ شیعوں کے امام ہیں، اگر تمہیں ایسا موقع ملا ہی ہے ، ان کو تمہارے سپرد کیا گیا ہے تو موقع کا فائدہ اٹھاؤ اور ان کی خدمت کرو۔ مجھ سے بھی جو ممکن ہوگا میں انکے لئے انجام دونگی۔
نحریر نے خشمگین حالت میں اپنی زوجہ پر نظر ڈالی اور کہا: خلیفہ نے انکو میرے حوالے کیا ہے تاکہ انہیں سکون سے ایک گھونٹ پانی نہ میسر ہو سکے اور تم کہہ رہی ہو کہ میں ان کی خدمت کروں؟! سچھ میں تم ناقص العقل ہو۔
خلیفہ کے حکم کی پابندی واجب ہے یا اما م کی اطاعت اور خدمت؟ نحریر! اب جبکہ ان کو گھر میں مقید کر لئے ہو تو ان پر اتنی سختی مت کرو! وہ تو شب و روز عبادت میں مشغول ہوتے ہیں اور ایک چینٹی کو بھی وہ تکلیف نہیں دیتے، خلیفہ کی دولت نے تمہیں کیوں اندھا کر دیا ہے اور حقیقت تمہیں کیوں نہیں نظر آتی؟!
نحریر، آگے بڑھا اور زوجہ کے چہرے پرایک طمانچہ مارا۔ زوجہ سیڑھیوں پر بل کھاتی ہوئی صحن خانہ میں گری۔
نحریر نے غصہ میں کہا: خدا کی قسم ان کو بھوکے اور درندہ شیروں کے درمیان ڈال دونگا۔
خاتون نے اپنے چہرہ پر ہاتھ کو رکھا اور رونے لگی۔ جب شوہر گھر سے باہر جا نے لگا تو مدھم آواز میں کہا: اے مرد یہ کام مت کرو، میں تمہاری عاقبت کے سلسلہ میں خوفزدہ ہوں۔
نحریر نے کویئ توجہ نہیں کی۔ دروازے کو تیزی سے بند کرتے ہوئے خلیفہ کے پاس چلا، اپنے ناپاک منصوبہ سے خلیفہ کو آگاہ کیا اور اس پر عمل کرنے کے لئے اس سے اجازت چاہی۔
خلیفہ نے سوچا کہ اس طرح ایک تیر سے دو نشانہ لگایا جا سکتا ہے، امام عسکری علیہ السلام بھی نہیں رہیں گے اور لوگ مجھے ان کا قاتل بھی نہیں کہیں گے۔ لہذا اسنے اپنی رائے دیدی۔
دوسرے دن جس جگہ پر حیوانات کو رکھا جاتا تھا،وہاں پر چند بھوکے شیروں کے درمیان امامؑ کو چھوڑ دیا گیا۔ جو لوگ دور سے اس ماجرے کو دیکھ رہے تھے، انھوں نے تصور کیا کہ کچھ ہی دیر میں، درندہ شیر، اما کو کھا لینگے۔ وہ وحشی جانور، امام حسن عسکری علیہ السلام کے قریب آئے تاکہ امامؑ کو سونگھیں (امامؑ ، شیروں سے ایک قدم کے فاصلہ پر تھے) اور پھر امام کے نزدیک، پالتو بلی کی طرح بیٹھ گئے اور اپنی دموں کو ہلانے لگے۔امامؑ نے انکے اوپر ہاتھ پھیرا، اور پھر قبلہ رخ ہو کر کے دو رکعت نماز ادا کی۔
تماشائی افراد، حیرت زدہ حالت میں اس طرح خاموش کھڑے رہے گویا ان میں جان ہی نہ ہو۔
نحریر نے حکم دیا کہ انؑ کو باہر لاؤ، مگر کوئی بھی اس کام کے لئے تیار نہ ہوا۔ آکر کار امام ؑ خود باہر آئے۔
نحریر نے کہا کہ ان کو ان کے گھر بھیجا جائے۔ نحریر کی زوجہ کہ جو اس واقعہ کی شاہد تھی، وہ اپنے شوہر کے پاس گئی۔ مرد پلٹا، گذشتہ روز کا واقعہ یاد آیا، سر کو جھوکایا اور وہاں سے چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ : حیات پاکان، مہدی محدثی
فارسی میں یہ واقعہ اس سایٹ پر موجود ہے: http://www.sibtayn.com
Add new comment