خلاصہ: امام حسن عسکری(علیہ السلام) کے زمانہ میں لوگ الگ الگ راستوں اور فرقوں کی طرف مائل ہورہے تھے جن میں سے ایک صوفی فرقہ کی طرف لوگوں کا راغب ہونا ہے، اس مضمون میں امام حسن عسکری(علیہ السلام) کے صوفیوں کے بارے میں بیان کو پیش کیا گیا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
لفظ صوفی، ایسے گروہ پر اطلاق ہوتا ہے جو ظاہری طور پر گوشہ نشین اور دنیا سے کنارہ کشی کے ذریعہ لوگوں کو راہِ حق سے منحرف اور گمراہ کیا کرتے تھے اور مسلمانوں کو امامت و ولایت کے حقیقی معنی سمجھنے کے لئے مانع بنتے تھے، ان میں سے بعض اپنے اس راستہ میں اپنے آپ کو امام علی(علیہ السلام) کی طرف منسوب کرتے تھے اور اپنے آپ کو امام علی(علیہ السلام) کے راستہ پر آگے بڑھنے والا سمجھتے تھے، امام علی( علیہ السلام) کے زمانے میں بہت کم ایسے افراد تھے جو زہد و گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے تھے، جو لوگ ایسا کرتے تھے، امام(علیہ السلام) ان کو ایسا کرنے سے منع کرتے تھے، آئمہ( علیہم السلام) ان کے ساتھ بیٹھنے سے منع کرتے تھے۔
امام حسن عسکری(علیہ السلام) اس فرقہ کے بارے میں امام صادق(علیہ السلام) سے ایک حدیث نقل فرماتے ہیں کہ کسی نے امام صادق(علیہ السلام) سے اس مسلک کے بانی ابو ہاشم کوفی کے بارے میں سوال کیا، امام (علیہ السلام) نے فرمایا: « إنّه كان فاسد العقيدة جدّاً، وهو الذي ابتدع مذهباً يُقال له التصوّف، وجعله مفرّاً لعقيدته الخبيثة[۱] وہ ایک فاسد عقیدے والا شخص تھا، اُس نے ایک نیا مذہب بنانے کی بدعت شروع کی جسے تصوف کہتے ہیں اور اس نے صوفیت کو ایک راہِ فرار کے طور پر قرار دیا ہوا تھا اپنے خبیث عقیدے کی وجہ سے»۔
امام حسن عسکری(علیہ السلام) نے اپنی ایک طولانی اور بہترین گفتگو میں ابو ہاشم جعفری سے فرمایا: اے ابو ہاشم! لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ اُن کے چہرے ہنستے مسکراتے اور ہشاش بشاش ہوں گے لیکن ان کے دل تاریک ہوں گے، ان کا شیوہ و طریقہ بدعتوں کا رایج کرنا ہوگا، مؤمن ان کے درمیان حقیر و خوار ہوگا جبکہ فاسق شخص کی اُن کے یہاں بہت قدر و قیمت ہوگی، اس دَور کے حُکام جاہل و جائر ہوں گے اور ان کے دانشور و اہل علم، ظلمت کی راہوں کے راہی ہوں گے، ان کے ثروتمند، فقیر و نادار لوگوں کو لوٹنے والے ہوں گے، ان کے بچے بڑوں پر سبقت لینے والے ہوں گے، ہر جاہل و نادان ان کے ہاں پڑھا لکھا اور طاقتور ہوگا جبکہ ہر فریادرس اُن کے نزدیک فقیر و ناچیز شمار ہوگا، اُن کے پڑھے لکھے افراد، زمین پر خُدا کی بدترین مخلوق ہوں گے کیونکہ وہ(غیر اسلامی و غیر الہٰی) فلسفہ و تصوف کی طرف راغب ہو جائیں گے، اگر کوئی عہدہ و منصب اُنہیں مل جائے تو رشوت خوری سے سیر نہیں ہوں گے اور اگر ذلیل و رسوا ہو جائیں اور کوئی عہدہ نہ مل سکے تو ریا کاری اور منافقت کرتے ہوئے دعا و مناجات کرنے لگیں گے، آگاہ ہو جاؤ کہ وہی لوگ مؤمنین کو نقصان پہچانے والے اور ان کیلیے رکاوٹیں پیدا کرنے والے ہیں، وہ ملحدوں کے مسلک کی طرف دعوت کرنے والے ہوں گے، پس جو بھی ایسے لوگوں کو دیکھے وہ ان سے دُوری اختیار کرے تاکہ اپنا دین و ایمان بچا سکے[۲]۔
امام حسن عسکری (علیہ السلام) کے مذکورہ بیانات سے اس فرقہ کی حیثیت اور وقعت کا بھرپور اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]۔ حسين بن محمد تقى نورى، مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل، مؤسسة آل البيت(عليهم السلام) - قم، ج۲، ص۹۲، ۱۴۰۸ق.
[۲]۔ علی اکبر جھانی، زندگی امام حسن عسگری(علیہ السلام)، چاپخانہ سپھر، ص۱۴۴، ۱۳۸۴ش۔
Add new comment