خلاصہ: اس مضمون میں، معتمد عباسی نے امام حسن عسکری(علیہ السلام) کی کس طرح تعریف کی ہے اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
امام حسن عسکری(علیہ السلام) کے فضائل اور کمالات کی گواہی آپ کے معتقدین اور غیر معتقدین، موافقین و مخالفین سب دیتے ہیں، آپ کی عظمت اور کرامت کا یہ عالم تھا کہ صرف ہم (شیعہ) آپ کے قصیدہ خواں نہیں بلکہ مخالفین اور دشمن بھی، آپ کو امام نہ ماننے والے افراد بھی اس کے معترف ہیں۔"
امام حسن عسکری(علیہ السلام) کے بارے میں نہ صرف آپ کے مخالفین آپ کی امامت کے معترف تھے بلکہ اس وقت کا حاکم(معتمد عباسی) بھی امام عسکری(علیہ السلام) کی امامت کا اعتراف کرتا تھا، بنیادی طور پر تاریخ کے مسلمہ امور میں سے ایک یہ ہے کہ بنو امیہ کے حکام اور بنو عباس کے حکام دونوں اس بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں رکھتے تھے کہ امامت، آئمہ طاہرین(علیہم السلام) کا مسلمہ حق ہے، ان کے لئے واضح تھا کہ امامت، اہلبیت(علیہم السلام) کا حق ہے اس کے علاوہ امامت سے متعلق روایات و دلائل کہ یہی حکمران ان کے بارے میں عام لوگوں سے زیادہ معلومات رکھتے تھے، خود آئمہ(علیہم السلام) کی زندگی اور اوصاف بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ امامت اہلبیت(علیہم السلام) کا حق ہے۔
امام عسکری(علیہ السلام) کا بھائی جعفر، معتمد عباسی سے کہتا ہے کہ کوئی ایسا کام کرو کہ میں شیعوں کے لئے امام کے عنوان سے منصوب ہو جاؤں، معتمد عباسی، جعفر کے جواب میں کہتا ہے: «إاعْلَمْ أَنَ مَنْزِلَةَ أَخِيكَ لَمْ تَكُنْ بِنَا إِنَّمَا كَانَتْ بِاللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ نَحْنُ كُنَّا نَجْتَهِدُ فِي حَطِّ مَنْزِلَتِهِ وَ الْوَضْعِ مِنْهُ وَ كَانَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ يَأْبَى إِلَّا أَنْ يَزِيدَهُ كُلَّ يَوْمٍ رِفْعَةً بِمَا كَانَ فِيهِ مِنَ الصِّيَانَةِ وَ حُسْنِ السَّمْتِ وَ الْعِلْمِ وَ الْعِبَادَة[۱] یہ مقام و مرتبہ جو تیرے بھائی کا ہے ہم نے ان کو یہ مرتبہ نہیں دیا ہے یہ مرتبہ تو خداوند عزوجل نے ان کو دیا ہے، ہماری کوشش تو یہ ہے کہ ہم ان کی منزلت کو کم کر دیں، لوگوں کے درمیان ان کے مقام و مرتبہ کو کمزور کردیں، لیکن جو بھی ہو خداوند عالم کا ارادہ یہ ہے کہ ان کو بلند کرے، علم، عبادت اور ان صفات کی بناء پر جو ان کے اندر ہیں»۔
معتمد کے اس کلام سے چند نکات کو اخذ کیا جاسکتا ہے:
۱۔ عباسی خلفاء وہ ہیں جنھوں نے اپنی تمام تر کوشش اس بات کے لئے صرف کردی کہ امام(علیہ السلام) کا نام و نشان تک باقی نہ رہے لیکن معتمد عباسی خود یہاں پر امام(علیہ السلام) کی فضیلت کا اقرار کر رہا ہے، یقینا اس کا امام(علیہ السلام) کی فضیلت کا اقرار کرنا ہمیں قرآن کی اس آیت کی طرف متوجہ کرتا ہے: «يُرِيدُونَ لِيُطْفِؤُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُون[سورۂ صف، آیت:۸] یہ لوگ چاہتے ہیں کہ نور خدا کو اپنے منہ سے بجھادیں اور اللہ اپنے نور کو مکمل کرنے والا ہے چاہے یہ بات کفار کو کتنی ہی ناگوار کیوں نہ ہو»۔
۲۔ معتمد عباسی نے خود اقرار کیا ہے کہ امام(علیہ السلام) کا جو مقام اور منزلت لوگوں کے نزدیک ہے وہ ان کی خوبیوں اور اچھائیوں کی وجہ سے ہے جو ان کے اندر پائی جاتی ہے اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری بھی لوگوں کے نزدیک وہی منزلت ہو تو تم بھی ان کے کردار کو اپناؤ۔
امام حسن عسکری(علیہ السلام) کا وہ کردار تھا کہ دشمن اپنی تمام تر کوشش کے باوجود، امام(علیہ السلام) کی برائی نہیں کرسکتا تھا کیونکہ امام(علیہ السلام) کے اندر کوئی برائی پائی ہی نہیں جاتی تھی، اگر ہم امام(علیہ السلام) کے حقیقی پیروکار اور چاہنے والے ہیں تو ہم کو بھی امام(علیہ السلام) کے کردار کو اپنانا چاہئے یہ کہہ کر اپنے دامن کو خالی نہیں کرنا چاہئے کے وہ امام تھے وہ یہ کام کرسکتے ہیں، نہیں، ہم کو اس بات کی کوشش کرنی چاہئے کے ہم امام(علیہ السلام) کے کردار کو چتنا ہم سے ممکن ہو اپنائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[۱]۔ محمد باقرمجلسى، بحار الأنوارالجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، دار إحياء التراث العربي - بيروت، دوسری چاپ، ج۲، ص۵۰، ۱۴۰۲ ق.
Add new comment