خلاصہ: قرآن کی آیات کے مطابق رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو اسوہ قرار دیاگیا ہے، اسی لئے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی سیرت کو ہمیں اپنانا چاہئے، اسی مقصد کی خاطر اس مضمون میں آپ کی اجتماعی زندگی کو بیان کیا جارہا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہر انسان کا کردار اسکی فکری اور روحی شخصیت کی عکاسی کرتا ہے، جس طرح وہ اس دنیا میں اجتماعی اعتبار سے زندگی گزارتا ہے اسی طرح سے لوگوں کے ذہنوں میں اسکی شخصیت بنتی ہے، آج کے دور میں انسان کسی ایسی شخصیت کی تلاش میں ہے جو اس کے لئے نمونہ ٔعمل ہو، خداوند عالم نے انسان کو اس تلاش سے نجات دلانے کے لئے اس دنیا کی بہترین شخصیت، رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی صورت میں پیش کیا اور فرمارہا ہے:« لَقَد كانَ لَكُم في رَسولِ اللَّهِ أُسوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن كانَ يَرجُو اللَّهَ وَاليَومَ الآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثيرًا[سورۂ احزاب، آیت: ۲۱]؛ تم میں سے اس کے لئے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ عمل ہے جو شخص بھی اللہ اور آخرت سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرتا ہے»۔
اب اگر انسان یہ چاہتا ہے کے زندگی کو خداوند متعال کے بتائے ہوئے طریقہ سے گزارے تو اسے چاہئے کہ وہ رسول خدا(صلی للہ علیہ و آلہ و سلم) کی سیرت کو اپنے لئے مشعل راہ قرار دے۔ اس ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس مضمون میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی اجتماعی زندگی کو اختصار کے ساتھ بیان کیا جارہاہے:
۱۔ لوگوں کے ساتھ
انسان اپنے کردار اور عمل کی بناء پر لوگوں میں پہچانا جاتا ہے اگر کوئی، لوگوں کی خوشی اور غم میں شریک ہو اور لوگوں کو اپنے سے الگ نہ سمجھتا ہو تو ایسا شخص لوگوں کے دلوں کو جیت لیتا ہے، رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اسی طرح کے کردار کو پیش کیا کہ جب بھی کوئی اس دنیا سے گزرتا آپ اس کی تشیع جنازے میں پہنچ جاتے، اگر کوئی مدینہ کے دور ترین حصہ میں بھی مریض ہوتا آپ اسکی عیادت کے لئے پہونچ جاتے[۱] اور اسی طرح اگر کوئی اپنے بچہ کو اس کا نام رکھنے کے لئے آپ کی خدمت میں لیکر آتا اور اگر اس بچہ نے آپ کے لباس کو نجس بھی کردیا ہو تب بھی اس کے والدین کو اس بچہ کو ڈرانے سے منع فرماتے اور اس طرح اس کے والدین، رسول خدا(صلی للہ علیہ و آلہ و سلم) کی خدمت سے خوش ہوکر لوٹتے[۲]۔
۲۔ آپ کا تبسّم
انسان مسکراہٹ اور ہنسی کے ذریعہ ایک دوسرے سے قریب ہوتا ہے، رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اپنے چھرے کے تبسم کے ذریعہ لوگوں کے دلوں کو جیت لیا کرتے تھے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ ) خود بھی مسکراتے تھے اور لوگوں کو بھی خوش کیا کرتے تھے۔ حدیث میں ہے کہ آپ سب سے پہلے مسکراتے تھے اور لوگوں کو ہنساتے تھے[۳]۔
۳۔لوگوں کے ساتھ ادب سے پیش آنا
انسان سے ملاقات سے اس کے اخلاق کا اندازہ ہوتا ہے، اس کا سلام کرنا، مصافحہ کرنا، مسکرا کر ملنا یہ سب ادب کی نشانیاں مانی جاتی ہیں، رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے اخلاق میں یہ تھا کہ آپ جب بھی کسی سے ملاقات کرتے، سب سے پہلے اس کو سلام کرتے[۴]، لوگوں سے مصافحہ کرنے کے لئے ہاتھ کو آگے بڑھاتے تھے[۵] اور اپنے ہاتھ کو دوسرے شخص کے ہاتھ سے اس وقت تک نبہں ہٹاتے تھے جب تک سامنے والا شخص خود اپنے مرضی سے ہاتھ کو نہ ہٹا لے[۶]۔
۴۔ لوگوں کے حالات کو پوچھنا
ایک معاشرے کا رہبر اگر لوگوں کے حالات سے باخبر ہو اور لوگوں کے گھروں پر اس کا آنا جانا ہو تو اس کے اس کردار کے ذریعہ وہ لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے لیتا ہے، رسول خدا(صلی للہ علیہ و آلہ و سلم) کبھی لوگوں سے غافل نہیں رہتے تھے اور ہمیشہ ان کے ساتھ مل جل کر رہا کرتے تھے، حضرت علی(علیہ السلام) اس کے بارے میں فرماتے ہیں: جب بھی آپ اپنے دینی بھائی کو تین دن تک نہیں دیکھتے تھے، اس کی تلاش میں چلے جاتے تھے، اگر وہ کسی سفر پر گیا ہے تو اس کے لئے دعا فرماتے تھے، اگر وہ شھر میں ہوتا تو اس سے ملاقات کے لئے جاتے تھے اور اگر وہ مریض ہوتا تو اس کی عیادت کے لئے جاتے تھے[۷]۔
رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے یہ کردار آپ کی شخصیت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ آپ اخلاق کے کس بلند درجہ پر فائز تھے، اگر ہم رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی حقیقی اتباع کرنے والے ہیں تو ہمیں بھی آپ کے ان کردار کو اپنانا چاہئے، خدا ہم سب کو رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) اور اہل بیت رسول(علیہم السلام) کے حقیقی چاہنے اور اتباع کرنے والوں میں شامل فرمائے۔
------------------------------------------------
حوالے:
[۱] «يُشَيِّعُ الجَنائِزَ وَ يعودُ الْمرضى فى اَقْصَى الْمَدينَةِ»، محمد باقرمجلسى، بحار الأنوار ، دار إحياء التراث العربي - بيروت، تیسری چاپ، ج۱۶، ص۲۲۸، ۱۴۰۳ق.
[۲] حسن بن فضل طبرسى، مكارم الأخلاق،شريف رضى - قم، چوتھی چاپ، ص۲۵، ۱۴۰۲ق/ ۱۳۷۰ش.
[۳] «كانَ اكْثَرَ النّاسِ تَبَسُّماً و ضِحْكاً فى وُجُوهِ اَصْحابِه»، بحار الانوار، ج۱۶، ص۲۲۸۔
[۴] «كانَ مِنْ خُلْقِهِ اَن يَبْدَأَ مَنْ لَقِيَهُ بالسّلامِ», ٖٖگذشتہ حوالہ۔
[۵] «اِذا لَقِىَ مُسلِماً بَدَأَ بالْمُصافَحَة»، ٖٖگذشتہ حوالہ۔
[۶] «اِذا لَقِيَهُ اَحَدٌ مِنْ اَصحابِهِ فَناوَلَ بِيَدِهِ ناوَلَها اِيّاهُ فلَمْ يَنْزَعْ عَنْهُ حَتّى يَكُونَ الرَّجُلُ هُوَ الّذى يَنْزِعُ عَنْهُ»، گذشتہ حوالہ، ج۱۶، ص۲۳۰۔
[۷] «اذا فَقَدَ الرَّجُلَ مِنْ اِخوانِهِ ثَلاثَةَ اَيّامٍ سَأَلَ عَنَهُ، فَانْ كانَ غائِباً دَعا لَهُ و اِنْ كانَ شاهِداً زارَهُ و اِنْ كانَ مريضاً عادَهُ»، ٖٖگذشتہ حوالہ، ج۱۶، ص۲۳۲۔
Add new comment