رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے نزدیک مقام خدیجہ (علیھاالسلام)

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ:رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے نزدیک مقام خدیجہ (علیھاالسلام)  شیعہ سنی کتب کی روشنی میں۔

رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے نزدیک مقام خدیجہ (علیھاالسلام)

حضرت ابوطالب (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کو حضرت خدیجہ (علیھا السلام ) سے خاص محبت تھی اور اسی طرح آپ کے نزدیک ان کا ایک خاص مقام تھا اور ہاں حضرت خدیجہ (علیھاالسلام) کو بھی رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) سے بہت الفت تھی اور آپ کا بہت احترام کرتی تھیں۔ جب تک حضرت خدیجہ (علیھا السلام) زندہ تھیں، رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) ایک سکون کی زندگی بسر کر رہے تھے، ابن کثیر، سہیلی سے نقل کرتے ہیں کہ خدیجہ (سلام اللہ علیھا) نے کبھی پیامبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کو اذیت نہیں دی اور نہ ہی کبھی ان کے سامنے اپنی آواز کو بلند کیا۔ [1]
جب پیامبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) تبلیغ کے لیے شھر سے باہر جاتے تھے تو حضرت خدیجہ (علیھا السلام) سکون سے نہیں بیٹھتی تھیں۔ ابن حجر عسقلانی کہتا ہے کہ پہاڑ پر چڑھ کر انہیں دیکھا کرتی تھیں۔[2] ایک روایت کے مطابق حضرت ابو طالب (علیہ السلام) کے پاس جاتیں اور کہتیں کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی کوئی خبر نہیں آئی، وہ سلامت تو ہیں نہ ۔[3]
رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) نے جس سال حضرت ابو طالب (علیہ السلام) اور حضرت خدیجہ (علیھا السلام) کا انتقال ہوا،  اس سال کے نام کو عام الحزن قرار دیا اور ان کی یاد میں ہمیشہ پریشان رہتے تھے اور کبھی کبھی تو اس پریشانی کے عالم میں گر جاتے تھے ۔[4]
اگرچہ یہ چیز پیامبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی بعض بیویوں کے لئے ناگوار تھی اور اس بنا پر پیامبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) سے وہ لڑ پڑتیں اور بلند آواز سے چلاتیں مگر یہ مہربان رسول، صبر سے کام لیتے اور کسی کو کچھ نہ کہتے ہاں اگر کوئی حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیھا) کو برابھلا کہتا تو اسے سختی سے جواب دیتے۔[5]
ایک دن پیامبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )، حضرت خدیجہ (علیھا السلام) کو بیٹھے یاد کر رہے تھے کہ جناب عائشہ نے کہا: خدا نے تمہیں اس سے اچھی بیوی عطاء کی ہے پھر اسے کیوں یاد کرتے ہو؟پھر خود کہا کہ : فغضب رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله غضبا شديدا. قال: لا و اللّه ما بدلت خيرا منها لقد آمنت بي قبل أن تر مني، و صدّقتني قبل أن تصدّقن، و رزقت مني من الولد ما قد حرمتنّ۔ پیغمبر اکرم (ص) غضبناک ہوئے اور کہا: خدا کی قسم خدانے مجھکو اس سے بہتر عطانھیں کی وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائی جب لوگ کفر اختیار کئے ھوئے تھے اس نے میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھکو جھٹلا رہے تھے اوراس نے اپنے مال کے ذریعہ میری اس وقت مدد کی جب لوگوں نے مجھےہر چیز سے محروم کردیاتھا اورخدانے صرف اسی کے ذریعہ مجھے اولاد عطا فرمائی اور میری کسی دوسری بیوی کے ذریعہ مجھے صاحب اولاد نھیں[6]
بخاری عائشہ سے روایت نقل کرتا ہے کہ حضرت خدیجہ (علیھاالسلام) کا پیامبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے نزدیک کیا مقام تھا ،عائشہ کہتی ہے : مَا غِرْتُ عَلَى أَحَدٍ مِنْ نِسَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا غِرْتُ عَلَى خَدِيجَةَ، وَمَا رَأَيْتُهَا، وَلَكِنْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكْثِرُ ذِكْرَهَا، ........ فَرُبَّمَا قُلْتُ لَهُ: كَأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ فِي الدُّنْيَا امْرَأَةٌ إِلَّا خَدِيجَةُ، فَيَقُولُ :إِنَّهَا كَانَتْ، وَكَانَتْ، وَكَانَ لِي مِنْهَا وَلَدٌ۔[7]
حضرت فاطمہ (علیھا السلام) حضرت خدیجہ (علیھا السلام) کی واحد یادگار تھیں نبی کی بعض بیویاں اسے تنگ کرنے کی خاطر کہتی تھیں اے خدیجہ کی بیٹی ، پیامبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )اس کے بعد بیٹی کو اپنے پاس بلاتے اور حضرت خدیجہ (علیھا السلام) کے فضائل بیان کرتے ۔[8]
پیامبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )حضرت خدیجہ (علیھا السلام) کی سہیلیوں سے بہت نرمی سے پیش آتے اور ان کے گھروں میں بہانے بہانے سے گوشت بھی بھیجا کرتے تھے ۔[9]
مقریزی حاکم سے اور حاکم انس بن مالک سے روایت نقل کرتا ہے کہ جب بھی پیامبر اسلام(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) گھر میں کچھ لے کر آتے تو کہتے: اذهبوا به إلى فلانة فإنّها كانت صديقة خديجة ،جاؤان ان خواتین کو دے آؤ وہ خدیجہ کی دوست تھیں۔[10]
عائشہ روایت نقل کرتی ہے کہ : : أن النبي صلّى الله عليه و سلّم كان يذبح الشاة فيتتبع بها صدائق خديجة بنت خويلد رضي الله عنها.پیغمبر جب گوسفند ذبح کرتے تھے تو خدیجہ کی دوستوں کے لیے بھیجتے تھے[11]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے جات
[1] (ابن کثیر،1407ق: 3/127)
[2] (ابن حجر،1415ق:8/102)
[3] (خصیبی،1419ق:65)
[4] (ابن حیون 1409ق ،3/21؛کراجکی،1421ق: 103؛ابن کثیر،1407ق:3/128)
[5] (ابن حیون 1409ق :3/21،مفید،الافصاح،1413ق:  217؛ فتال،1375ش:2/ 269)
[6] ( ابن حیون 1409ق : 3/22 )
[7] (بخاری،1422ق:5/38)
[8] (صدوق،1362ش:2/405؛مفید،الجمل،1413ق: 411)
[9] (ابن حیون 1409ق ، 3/18؛فتال نیشاپوری 1375ش: 2/269؛ بلاذری،1417ق: 1/412.مقریزی1420ق: 2/226؛بخاری،1422ق:5/39؛ مسلم بی تا:4/1888)
[10] (مقریزی1420ق:2/227.)
[11] (مقریزی1420ق:2/227.) 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 11 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 39