خلاصہ: ہر شیعہ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو حضرت علی(علیہ السلام) کا شیعہ کہلوائے، اسی لئے امام حسن عسکری(علیہ السلام) کی نظر میں حقیقی شیعہ وہ ہے جو حضرت علی(علیہ السلام) کی پیروی کرے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیہم
امام حسن عسکری(علیہ السلام) کی ولادت ۸، ربیع الثانی سن۲۳۲ھ،ق کو مدینہ منورہ میں ہوئی آپ کی ولادت نے تمام عالم کو اپنے نور سے منور کردیا، آپ کی امامت کی مدت ۶، سال کی تھی اور آپ کے زمانے میں ۳، عباسی خلفاء نے حکومت کی جو ظلم اور جور میں ایک دوسرے پر سبقت رکھتے تھے جن کے نام المتعز باللہ، المھتدی باللہ، اور المعتمد باللہ تھے[۱]۔
آپ کی امامت ۲۵۴ہجری کو شروع ہوئی اور ۲۶۰ہجری میں آپ کی شھادت کے ذریعہ ختم ہوگئی۔ امام(علیہ السلام) کی ولادت کی مناسبت سے امام کی نظر میں شیعہ کسے کہتے ہیں اس کو بیان کیا جارہا ہے تاکہ ہم امام کے فرمان کے مطابق اپنے آپ کو امام(علیہ السلام) کا شیعہ بنانے کے لئے قدم اٹھا سکیں۔
امام حسن عسکری(علیہ السلام) کے مطابق جو کوئی اپنے آپ کو شیعہ کہتا ہے اگر اس کے اندر حقیقی شیعوں کی خصوصیات نہ پائی جائیں تو اس کا شمار شیعوں میں نہیں ہوگا، امام(علیہ السلام) کی نظر میں حقیقی شیعہ وہ ہے جو اپنے اماموں کی طرح لوگوں کی خدمت اور ان کی مدد کرنے میں ہمیشہ کوشاں رہے اور اللہ تعالی نے جن چیزوں کا حکم دیا ہے انھیں بجالائے اور جن چیزوں سے روکا ہے ان سے رک جائے، امام (علیہ السلام) حقیقی شیعہ کی تعریف میں فرمارہے ہیں:« شیعة عَلِّىٍ هُمُ الّذین یؤثِرُونَ اِخوانَهم عَلى اَنفُسِهِم وَ لَو کانَ بِهِم خصاصَةٌ وَ هُمُ الَّذینَ لایَراهُمُ اللّه حَیثُ نَهاهُم وَ لا یَفقَدُهُم حَیثُ اَمرَهُم، وَ شیعَةُ عَلِىٍّ هم الَّذینَ یَقتَدُون بِعَلىٍ فى اکرامِ اِخوانِهُم المُؤمِنین[۲] علی(علیہ السلام) کے شیعہ وہ لوگ ہیں جو اپنے دینی بھائیوں کو اپنے اوپر مقدم رکھتے ہیں اگرچہ کہ خود ان کو ضرورت ہو، اور خدا نے جن چیزوں سے منع کیا ہے اس سے دور رہتے ہیں اور جن چیزوں کا حکم دیا ہے ان پر عمل کرتے ہیں اور علی(علیہ السلام) کے شیعہ وہ ہیں جو اپنے مؤمن بھائیوں کا احترام کرنے میں علی(علیہ السلام) کی اقتداء کرتے ہیں»۔
دوسری جگہ امام حسن عسکری(علیہ السلام) مؤمنین(شیعوں)کی نشانیوں کے بارے میں فرمارہے ہیں: «علامات المؤمنین خمسٌ صلاة الاحدى و الخمسین و زیارة الاربعین و التختم فى الیمین و تعفیر الجبین و الجهر ببسم اللّه الرحمن الرحیم[۳] مؤمنین(شیعوں) کی پانچ نشانیاں ہیں: ہر روز ۵۱، رکعت نماز پڑھنا، زیارت اربعین، داہنے ہاتھ میں انگھوٹی کا پہننا، اور خاک پر سجدہ کرنا، اور بسم اللہ الرحمن الرحیم کو بلند آواز سے پڑھنا».
ایک اور جگہ پر امام حسن عسکري(عليہ السلام) شیعوں کے بارے میں فرمارہے ہیں: «أعْرَفُ النّاسِ بِحُقُوقِ إخْوانِهِ، وَأشَدُّهُمْ قَضاءً لَها، أعْظَمُهُمْ عِنْدَاللهِ شَأناً اللهِ و من تواضع في الدنيا لاخوانه فهو عندالله من الصديقين و من شيعة علي بن ابي طالب عليه السلام حقاً[۴]جو شخص اپنے بھائیوں کے حقوق کی سب سے زیادہ معرفت رکھتا ہے اور ان حقوق کو ادا کرنے میں سب سے زیادہ کوشاں ہے وہ شان و منزلت کے لحاظ سے اللہ کے نزدیک سب سے بڑا اور عظیم ہے اور اس کا درجہ اور رتبہ سب سے اونچا ہے اور جو بھی دنیا میں اپنے بھائیوں کے لئے سب سے زیادہ تواضع اور خاکساری کا مظاہرہ کرے گا وہ اللہ کی بارگاہ میں صدیقین میں سے ہے اور علی ابن ابیطالب(علیہ السلام) کے حقیقی شیعوں میں سے ہے»۔
واضح رہے کہ امیرالمؤمنین حضرت علی(علیہ السلام) کے حقیقی شیعہ سلمان، ابوذر، مقداد، عمار اور محمد ابن ابوبکر اور مالک اشتر تھے، جنھوں نے ولایت کی پیروی کا حق ادا کرتے ہوئے کبھی بھی اپنے ولی کے حکم پر عمل کرتے ہوئے شک و تردید سے کام نہیں لیا اور کبھی بھی اپنی رائے ولی امر کی رائے پر مقدم نہیں رکھی بلکہ کبھی بھی اللہ کے ولی کے سامنے اپنی رائے ظاہر کرنے کی کوشش نہیں کی جبکہ ہم تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ حتی رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے حکم جاری ہونے کے باوجود اپنی رائے کا اظہار ہی نہیں بلکہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے حکم کی اعلانیہ مخالفت تک کیا کرتے تھے اور یہ ولایت پذیری کے بالکل خلاف ہے حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) تمام مسلمانوں پر ولایت رکھتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱] محمد بن مكى شهيد اول، الدرّة الباهرة من الأصداف الطاهرة با ترجمه (ط - القديمة)، انتشارات زائر - قم، ص۴۵، ۱۲۷۹ ش.
[۲] محمد باقرمجلسى، بحار الأنوار، دار إحياء التراث العربي – بيروت، دوسری چاپ، ج۶۵، ص۱۶۳، ۱۴۰۳ق.
[۳] گذشتہ حوالہ، ج۶۶، ص۴۰۷.
[۴] گذشتہ حوالہ ج۴۱، ص۵۵۔
Add new comment