خلاصہ: امام حسن عسکری(علیہ السلام) کے زمانے میں ایک نصرانی راہب کے ذریعہ لوگوں کے ذہنوں میں ایک شبہہ پیدا ہوگیا تھا جس کی وجہ سے لوگ دین سے منحرف ہورہے تھے، امام(علیہ السلام) نے لوگوں کے ذہنوں سے اس شبہہ کو دور فرمایا۔ اس مقالہ میں اسی بات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا پے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تاریخ میں منقول ہے کہ جس زمانے میں حضرت امام حسن عسکری( علیہ السلام) سامرا میں قید میں تھے اس وقت لوگوں کو ایک شدید قحط کا سامنہ کرنا پڑا اس وقت معتمد عباسی نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ صحرا میں جائیں اور نماز استسقاء پڑھیں اور خداوند متعال سے بارش کے لئے دُعا مانگیں، مسلمانوں نے تین دن تک مسلسل ایسا ہی کیا لیکن اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔
چوتھے دن جاثلیق نصرانی، نصاريٰ اور مسلمانوں کی ایک تعداد کے ساتھ طلب باران کے لئے صحرا گئے وہاں مسیحی راہب نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف پھیلائے اور بارش ہونے لگی، اگلے دن پھر لوگوں نے طلب باران کے لئے ایسا ہی کیا اور راہب کی دعا سے آسمان سے پانی برسنا شروع ہوگیا اور لوگ سیراب ہوئے، لوگوں کو راہب کے اس عمل پر تعجب ہونے لگا اور اسلام کی حقانیت پر شک کرنے لگے اور بعض نے تو اسلام چھوڑ کر مسیحیت کو اپنا دین منتخب کرلیا، خلیفۂ وقت کیلیے یہ مسئلہ بہت پریشانی کا باعث بن گیا لہٰذا اس مشکل سے نکلنے کیلیے اُس نے صالح ابن وصیب کو حکم دیا کہ امام عسکری(علیہ السلام) کو آزاد کر دے۔ معتمد نے سارا ماجرا امام(علیہ السلام) سے بیان کیا۔
امام(علیہ السلام) نے فرمایا: لوگوں سے کہو کہ کل پھر حاضر ہوں، معتمد نے کہا: لوگوں کو پانی مل گیا ہے لہٰذا اُنہیں ضرورت نہیں ہے کہ صحرا کو جائیں اور طلب باران کریں، حضرت نے فرمایا: میں چاہتا ہوں کے لوگوں کے ذہنوں سے شک اور شبہہ کو نکال دوں اور اُنہیں اس سے نجات دلاؤں۔
معتمد عباسی نے حکم دیا کہ جاثلیق اور مسیحی راہب طلب باران کے لیے حاضر ہوں اور لوگ بھی ساتھ آئیں، معتمد کے حکم کے مطابق یہ سب آگئے، تمام مسیحوں نے حسب عادت ہاتھوں کو آسمان کی طرف پھیلایا، اُس راہب نے بھی ایسا ہی کیا، اچانک آسمان پر بادل نمودار ہونے لگے اور بارش ہونے لگی۔
اس موقع پر امام حسن عسکری( علیہ السلام) نے لوگوں کے ذہنوں سے شک و شبہہ دور کرنے اور اپنے جد بزرگوار حضرت محمد مصطفيٰ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین مبین ’’اسلام‘‘ کی حقانیت ثابت کرنے کیلیے راہب سے فرمایا: اپنے ہاتھوں کو کھولو، جب اُس نے ہاتھ کھولے تو سب نے دیکھا کہ اُس کی انگلیوں کے درمیان کسی آدمی کے بدن کی ہڈی ہے، امام( علیہ السلام ) نے مسیحی راہب کے ہاتھ سے وہ ہڈی لے لی اور ایک کپڑے میں لپیٹ دی اور پھر راہب سے فرمایا: اب طلب باران کرو، راہب نے پھر اُسی طرح کیا لیکن بارش برسنے کی بجائے بادل اِدھر اُدھر ہونے لگے اور سورج ظاہر ہوگیا۔
لوگوں نے اس واقعہ سے مزید تعجب کیا، اس وقت معتمد عباسی نے امام(علیہ السلام) سے سوال کیا: اس امر کی وجہ بیان فرمائیں۔ امام(علیہ السلام) نے فرمایا: ان لوگوں نے کسی قبرستان سے ایک پیغمبر کے بدن کی ہڈی حاصل کر لی تھی اور کسی بھی پیغمبر کے بدن کی ہڈی زیر آسمان جب بھی آشکار و ظاہر ہو تو آسمان سے بارش ہونا شروع ہو جاتی ہے، لوگوں نے امام حسن عسکری(علیہ السلام) کی وضاحت پر یقین کرلیا، پھر اسی طرح خود بھی آزما کر دیکھا تو قضیہ ویسا ہی تھا جیسا ٘امام(علیہ السلام) نے بیان فرمایا تھا۔
اس ماجرا کے بعد حضرت سامرا واپس لوٹے اور لوگوں کے ذہنوں سے دین اسلام کے بارے میں شکوک برطرف ہوگئے، اس سے معتمد عباسی اور دوسرے مسلمان سب خوش ہوگئے، امام(علیہ السلام) نے دوسرے قیدیوں کی رہائی کے بارے میں بھی معتمد عباسی سے فرمایا، اس نے حکم دیا کہ تمام قیدیوں کو آزاد کر دیا جائے[۱]۔
تفصیل کےلئے اس کتاب کی طرف مراجعہ فرمائیں؛
موسى خسروى، زندگانى حضرت جواد و عسكريين(عليهم السلام )( ترجمه جلد 50 بحار الأنوار)، اسلاميه - تهران، چاپ: دوم، ص۲۲۶، ۱۲۶۴ ش.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[۱]۔ ابن شھر آشوب، مناقب آل ابی طالب، علامہ، ج۴، ص۴۲۵۔ اس کتاب سے نقل کیا گیا: علی اکبر جھانی، زندگی امام حسن عسگری(علیہ السلام)، چاپخانہ سپھر، ص۱۳۹، ۱۳۸۴ش۔
Add new comment