حضرت فاطمه(عليها السلام) ولايت کی فدائی

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) نے حضرت علی(علیہ السلام) کی ولایت کو لوگوں تک پہونچانے میں کسی قسم کی کمی نہیں کی بلکہ ان سخت حالات میں بھی آپ نے امامت اور ولایت کی حفاظت فرمائی۔

حضرت فاطمه(عليها السلام) ولايت کی فدائی

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کی سیرت کو اپنانا اس دور میں ان کے ماننے والوں کے لئے سب سے زیادہ ضروری اور اہمیت کا باعث ہے۔ سب سے پہلے ہم کو آپ کی سیرت کا مطالعہ کرنا چاہئے اس کے بعد اس کو اپنانا چاہئے تاکہ ہمارا شمار آپ کے حقیقی چاہنے والوں میں ہوں۔
     حضرت زہرا(سلام اللہ علیہا) کی سیرت میں جو اہم ترین چیزیں پائی جاتی ہیں ان میں سے ایک یہ ہیکہ آپ نے امامت اور ولایت کے دفاع کے لئے کسی بھی قسم کی کوئی بھی کمی نہیں کی، ان سخت حالات کے باوجود آپ نے حضرت علی(علیہ السلام) کی ولایت کو لوگوں کو اپنے خطبوں کے ذریعہ بتایا۔
     حضرت زہرا(سلام اللہ علیہا) کو ولایت کا فدائی کہا جاتا ہے کیونکہ آپ نے اپنی مختصر زندگی میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی وفات کے بعد حضرت علی(علیہ السلام) کی ولایت کا اس طرح دفاع کیا کہ تاریخ میں ہمیشہ کے لئے ثبت ہوگیا۔
     حضرت زہرا(سلام اللہ علیہا)، شمع امامت کا وہ پروانہ تھا جس نے امامت اور ولایت کے عشق اور محبت میں اپنے آپ کو جلادیا اور ہم کو یہ بتادیا کہ دیکھوں امامِ برحق کعبہ کی طرح ہے۔ لوگوں کو چاہئے کہ وہ کعبہ کا طواف کریں نہ کہ کعبہ لوگوں کا طواف کرتا ہے: مَثَلُ الاِمامِ مَثَلُ الْكَعْبَةِ اِذْ تُؤْتى وَ لا تَأْتى[۱] امام کعبہ کی طرح ہے اس کے پاس جاتے ہیں وہ تمھارے پاس نہیں آتا. یہ حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) تھیں جنھوں نے اپنے آپ کو نابود کرکے ولایت کو بچایا اور ایک لمحہ بھی ولیّ امر کی اطاعت سے روگردانی نہیں کی۔
     جس وقت حضرت علی(علیہ السلام) کو مسجد کوفہ کی جانب لے جایا جارہا تھا، حالانکہ اس وقت حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) شدید زخمی تھیں، اس زخمی حالت میں بھی آپ نے اپنے آپ کو حضرت علی(علیہ السلام) اور ان لوگوں کے درمیان پہونچایا اور فرمایا: «وَاللّه ِلا اَدَعُکُمْ تَجُرُوّنَ اِبنَ عَمّی ظُلْما[۲] خدا کی قسم میں ابوالحسن کو اس طرح ظلم سہتے ہوئے مسجد کی جانب جانے نہیں دونگی». اس کے بعد بھی جب حضرت علی(علیہ السلام) کو مسجد کی جانب لے جایا گیا، حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) مسجد میں داخل ہوئی اور فرمایا:«خَلُّوا عَنْ اِبْنِ عَمّی فَوَالَّذی بَعَثَ مُحَمَّدا بِالْحَقِّ لَئِنْ لَمْ تُخِلُّوا عَنْهُ لاََنْشُرَنَّ شَعری وَ لاََضَعَنَّ قمیصَ رَسُولِ اللّه صلی الله علیه و آله عَلی رَأسی وَ لاََصْرُخَنَّ اِلَی اللّه ِ تَبارَکَ وَ تَعالی[۳] ابوالحسن کو چھوڑ دو! خدا کی قسم جس نے حضرت محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، اگر تم لوگوں نے ابوالحسن کو نہیں چھوڑا تو میں اپنے بالوں کو بکھرادونگی اور رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی قمیص کو اپنے سر پر رکھ کر خدا کی بارگاہ میں فریاد کرونگی»۔
     جب حضرت علی(علیہ السلام) کے اشارہ پر جناب سلمان نے آپ کو نفرین کرنے سے منع کیا اور گھر واپس جانے کے لئے کہا، حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) نےفرمایا:«یُریدُونَ قَتْلَ عَلِیٍّ(علیه السلام) وَ ما عَلی عَلِیٍّ علیه السلام صَبْرٌ[۴] وہ لوگ حضرت علی(علیہ السلام) کو قتل کرنا چاہرہے ہیں اور میں علی(علیہ السلام) کے قتل پر صبر نہیں کرسکتی»۔
     تمام لوگ حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کے اس شدید دفاع کی وجہ سے ڈر گئے اور مجبور ہوکر امام علی(علیہ السلام) کو آزاد کردیا، جب حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا) نے حضرت علی(علیہ السلام کو دیکھا تو فرمایا: «روُحی لِروُحِکَ الْفِداءُ وَ نَفْسی لِنَفْسِکَ الْوَقاءُ یا اَبَاالْحَسَنِ[۵] اے ابوالحسن! میری روح آپ کی روح پر فدا ہوجائے، میرے جان آپ پر قربان ہوجائے، میں ہمشہ آپ کے ساتھ رہونگی۔
     حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کی شخصیت وہ ہیں کہ جس نے  اپنے والد کو رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور اپنے شوہر حضرت علی(علیہ السلام) کو ولیّ خدا ہونے کے اعتبار سے اطاعت کی، اور اسلام کی خدمت کی، ایسی خدمت جو عالم اسلام میں کوئی پیش نہ کرسکا، اگر حضرت زہرا(سلام اللہ علیہا) کے وہ ہدایت سے بھرے ہوئے خطبے نہ ہوتے تو آج ہم کو بھی اس بات کا یقین نہ ہوتا کہ حق جضرت علی(علی السلام) کے ساتھ ہے کیونکہ نفاق، کینہ، دنیا پرستی، سادہ لوحی سیاست بازی، لالچ، جھوٹی تبلیغ، تحریف اس طرح رائج ہوگئے تھے اور امامت اس طرح کمزور ہوگئی تھی کہ کوئی حضرت علی(علیہ السلام) کی حق پر مبتنی آواز کو سننے کے لئے بھی تیار نہیں تھا۔
نتیجہ:
     رسالت اور امامت، انسان کی خلقت کے ہدف کو تحقق بخشنے کا سبب ہے، حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کی ذات تھیں جنھوں نے امامت کو ایک دوسری حیات بخشی اور رسالت اپنا پھل دینے کے لائق ہوئی اور انسان کو اس کی خلقت کے مقصد کے نزدیک کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱] محمد باقرمجلسى، بحار الأنوار، ج۳۶، ص۳۵۳، دار إحياء التراث العربي ،بيروت، دوسری چاپ، ۱۴۰۳ق.
[۲] فیض کاشانی، نوادر الاخبارفیما یتعلق باصول الدین، محقق: مھدی انصاری قمی، ص ۱۸۳،  مؤسسہ مطالعات و تحقیقات فرھنگی، تھران، ۱۳۷۱ش۔
[۳] بحار الانوار، ج۲۸، ص۲۰۶۔
[۴] گذشتہ حوالہ، ص۲۲۸۔
[۵]نهج الحیاة، ص۱۵۹، ح ۷۵٫۔ http://imammahdi.ir/1394/02/29/حضرت-زهرا-سلام-الله-علیها-و-سبک-زندگی-اج

منبع: کتاب: مصباح یزدی، جامی از زلال کوثر،ص۱۴۵۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 80