خلاصہ: حضرت آمنہ(علیہا سلام)، رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی والدۂ گرامی تھیں، آپ ایک باایمان اور نیک خاتون تھیں، جس کے ایمان پر بہت زیادہ روایتیں دلالت کرتی ہیں، آپ کا انتقال مدینہ کے سفر کے درمیان ہوا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
حضرت آمنہ(علیہا سلام) وہب ابن عبد مناف کی بیٹی تھیں[۱] اور آپ کی والدہ کا نام ’برہ‘ تھا[۲]۔ تاریخ میں آپ کی زندگی کی جزئیات کو بیان نہیں کیا گیا، آپ کی تعریف میں اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ آپ حضرت محمد مصطفی(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی ماں ہیں، جو تمام فضائل اور کمالات کا منبع اور خداوند متعال کا کامل ترین مظھر ہے، اس مضمون میں مختصر طور پر حضرت آمنہ(علیہا سلام) کے ایمان کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ آپ کے ایمان کے بارے میں جو شک اور تردید لوگوں دلوں میں ہیں، وہ دور ہوجائے۔
حضرت آمنہ کی حضرت عبداللہ (علیہ السلام) سے شادی
جناب عبداللہ(علیہ السلام) کی قربانی کے واقعہ کے بعد جناب عبدالمطلب(علیہ السلام)، اپنے بیٹے عبداللہ کے ساتھ وہب ابن عبد مناف کے گھر گئے تاکہ اپنے بیٹے عبداللہ(علیہ السلام) کی شادی کی بات، ان کی دختر جناب آمنہ(علیہا سلام) سے کریں[۳]، وہب ابن عبد مناف نے جناب عبدالمطلب کی تجویز کو قبول کرلیا اور اسی دن جناب عبداللہ اور آمنہ کی شادی ہوگئی[۴]۔
حضرت آمنہ کا ایمان
شیعہ تاریخ دانوں نے حضرت آمنہ(سلام اللہ علیہا) کو ایک باایمان خاتون کے طور پر پیش کیا ہے[۵]۔ آپ ایک باایمان خاتون تھیں، اس بات کو ثابت کرنے کے لئے یہاں پر دو دلیلوں کو بیان کیا جارہا ہے تاکہ جن لوگوں کو آپ کے ایمان کے بارے میں شک ہے برطرف ہوجائے۔
۱۔ روایت میں وارد ہوا ہے کہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اپنے آخری حج کے فرائض کو انجام دینے کے بعد جب مدینہ واپس آرہے تھے، آپ ایک قبر جو بہت زیادہ خراب ہوچکی تھی اس کے پاس بہت زیادہ دیر تک بیٹھ گئے اور آپ نے وہاں پر بہت زیادہ گریہ کیا، اصحاب نے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے پوچھا کہ یہ قبر کس کی ہے؟
آپ نے فرمایا: یہ میری والدہ، آمنہ(علیہا سلام) کی قبر ہے۔
اس روایت کو شیعہ[۶] اور اہل سنت[۷] دونوں نے نقل کیا ہے۔
اس روایت کے ذریعہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت آمنہ(علیہا سلام) باایمان خاتون تھیں، کیونکہ سورۂ توبہ کی ۸۴ویں آیت میں خداوند متعال نے حکم دیا ہے کہ: «وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓي اَحَدٍ مِّنْہُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰي قَبْرِہٖ اِنَّہُمْ كَفَرُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَمَاتُوْا وَہُمْ فٰسِقُوْنَ[سورۂ توبہ، آیت:۸۴] اور خبردار ان میں سے کوئی مر بھی جائے تو اس کی نماز جنازہ نہ پڑھئے گا اور اس کی قبر پر کھڑے بھی نہ ہویئے گا کہ ان لوگوں نے خدا اور رسول کا انکار کیا ہے اور حال فسق میں دنیا سے گزر گئے ہیں».
۲۔ امام صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں: «خداوند متعال نے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو حضرت آمنہ(علیہا سلام) کی شفاعت کرنے کی اجازت دی ہے»[۸]۔
ان دو روایتوں اور اس جیسی دوسری روایتوں[۹] سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت آمنہ(علیہا سلام) مشرک نہیں تھیں بلکہ وہ ایک باایمان اور نیک خاتون تھیں۔
حضرت آمنہ(علیہا سلام) کی وفات
جس وقت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) چھ سال کے تھے، حضرت آمنہ(علیہا سلام) نے مدینہ کا سفر کیا اور اسی سفر میں آپ کا انتقال ہوگیا[۱۰]
نتیجہ:
حضرت آمنہ(علیہا سلام) ایک باایمان خاتون تھیں جس نے کبھی بھی کفر و شرک کو اختیار نہیں کیا، جس کے ایمان کے اوپر شیعہ اور اہل سنت دونوں نے روایتوں کو نقل کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱] شیخ مفید، محمّد بن محمد بن نعمان، المقنعة، ص۴۵۶، قم، کنگره جهانی هزاره شیخ مفید، پہلی چاپ، ۱۴۱۳ق.
[۲]. طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک(تاریخ طبری)، تحقیق، ابراهیم، محمد أبو الفضل، ج۲، ص۲۴۳، بیروت، دار التراث، دوسری چاپ،۱۳۸۷ق.
[۳]. ابن سعد کاتب واقدی، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، ج۱، ص۷۶، بیروت، دار الکتب العلمیة، دوسری چاپ، ۱۴۱۸ق.
[۴]. ابن هشام، عبد الملک، السیرة النبویة، تحقیق، السقا، مصطفی، الأبیاری، ابراهیم، شلبی، عبد الحفیظ، ج۱، ص۱۵۶، بیروت، دار المعرفة، پہلی چاپ، بیتا؛ ابن کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایة و النهایة، ج۲، ص۲۴۹، بیروت، دار الفکر، ۱۴۰۷ق.
[۵]. شیخ صدوق، اعتقادات الامامیة، ص۱۱۰، قم، کنگره شیخ مفید، دوسری چاپ، ۱۴۱۴ق.
[۶]. شیخ مفید، الفصول المختارة، محقق، مصحح، میر شریفی، علی، ج۲، ص۶۴، قم، کنگره شیخ مفید، پہلی چاپ، ۱۴۱۳ق؛ ابن شهرآشوب مازندرانی، محمد بن علی، متشابه القرآن و مختلفه، ج۲، ص۶۴، قم، انتشارات بیدار، پہلی چاپ،۱۴۱۰ق.
[۷]. نمیری بصری، عمر بن شبة بن عبیدة بن ریطة، تاریخ المدینة، محقق، فهیم محمد شلتوت، ص۱۱۹، جدة، ۱۳۹۹ق؛ شیبانی، أحمد بن محمد بن حنبل، مسند أحمد بن حنبل، محقق، شعیب الأرنؤوط، عادل مرشد و ....، ج۳۸، ص۱۴۶، بیروت، مؤسسة الرسالة، پہلی
چاپ، ۱۴۲۱ق.
[۸]. شیخ صدوق، الخصال، محقق، مصحح، غفاری، علی اکبر، ج۱، ص۲۹۴، قم، دفتر انتشارات اسلامی، پہلی چاپ، ۱۳۶۲ش.
[۹]. عیاشی، محمد بن مسعود، التفسیر، محقق، مصحح، رسولی محلاتی، هاشم، ج۲، ص۳۱۴، تهران، المطبعة العلمیة، پہلی چاپ، ۱۳۸۰ق.
[۱۰]. بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، تحقیق، زکار، سهیل، زرکلی، ریاض، ج۱، ص۹۴، بیروت، دار الفکر، پہلی چاپ، ۱۴۱۷ق.
Add new comment