خلاصہ: کیونکہ گھروالوں کو بہتر معلوم ہوتا کہ ہے گھر میں کیا کچھ ہے اور صورتحال کیسی ہے تو حضرت ابوطالب علیہ السلام کے ایمان کو اہل بیت علیہم السلام کی زبان سے سننا چاہیے۔ چند معصومین علیہم السلام سے حضرت ابوطالب علیہ السلام کے ایمان اور عظمت کے بارے میں کچھ روایات نقل کی ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ایمان ابوطالب علیہ السلام روایات کی روشنی میں
کیونکہ گھروالوں کو بہتر معلوم ہوتا کہ ہے گھر میں کیا کچھ ہے اور صورتحال کیسی ہے تو حضرت ابوطالب علیہ السلام کے ایمان کو اہل بیت علیہم السلام کی زبان سے سننا چاہیے:
۱۔ جب حضرت علی علیہ السلام نے حضرت ابوطالب کی وفات کی خبر پیغمبر اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو دی تو آپؐ شدت سے روئے اور حضرت علی علیہ السلام کو غسل، کفن اور دفن کرنے کا حکم دیا اور خداوند سے حضرت ابوطالبؑ کے لئے مغفرت طلب کی۔
۲۔ امام سجاد علیہ السلام کے حضور میں، حضرت ابوطالب علیہ السلام کے ایمان کے بارے میں بات ہوئی تو آپؑ نے فرمایا: "میں تعجب کرتا ہوں کہ لوگ آنحضرتؑ کے اخلاص میں شک کیوں کرتے ہیں، حالانکہ کسی مسلمان عورت کو نہیں چاہیے کہ اسلام لانے کے بعد کافر شوہر کی زوجیت میں باقی رہے اور فاطمہ بنت اسد جو اسلام لانے میں سبقت کرنے والوں میں سے تھیں، ابوطالبؑ کی وفات تک آنحضرتؑ کے عقد میں رہیں۔
۳۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: حضرت ابوطالبؑ کے ایمان کو بہت سارے لوگوں کے ایمان پر ترجیح ہے اور حضرت امیرالمومنینؑ حکم دیتے تھے کہ حضرت ابوطالبؑ کی طرف سے حج کی جائے۔[1]
۴۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: حضرت ابوطالبؑ، اصحاب کہف کی طرح ہیں کہ ان (اصحاب کہف) کے دل میں ایمان تھا اور شرک کا اظہار کرتے تھے، لہذا انہیں دو اجر دیئے جائیں گے۔
۵۔ حضرت عبدالعظیم حسنی نے حضرت امام رضا علیہ السلام سے ایک خط میں حضرت ابوطالبؑ کے ایمان کے بارے میں دریافت کیا، امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: "بسم اللہ الرحمن الرحیم، اگر تم ابوطالب کے ایمان میں شک کرو تو تمہارا انجام آتشِ جہنم ہے"۔[2]
۶۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "نزل جبرئیل علیه السلام علی النبی صلی الله علیه وآله فقال: یا محمد! ان ربک یقرئک السلام و یقول: انی قد حرمت النار علی صلب انزلک و بطن حملک و حجر کفلک فالصلب صلب ابیک ابیه عبدالله بن عبدالمطلب و البطن الذی حملک آمنه بنت وهب و اما حجر کفلک فحجر ابی طالب".
جبرئیلؑ، پیغمبر ؐ پر نازل ہوئے اور عرض کیا: اے محمدؐ! آپؐ کا پروردگار آپ ؐ کو سلام دے رہا ہے اور فرماتا ہے: "میں نے حرام کی ہے آگ اُس صلب پر جس نے آپؐ کو حمل کیا اور اس بطن پر جس نے آپؐ کی پرورش کی اور اس دامن پر جس نے آپؐ کی کفالت کی، پس صلب یعنی آپؐ کے والد عبداللہ اور بطن یعنی آپؐ کی والدہ آمنہ اور دامن یعنی آپؐ کے چچا ابوطالب"۔[3]
ابو بصیر لیث مرادی نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کیا ہے: "… خدا کی قسم اگر ابوطالبؑ کے ایمان کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور اِس مخلوق کے ایمان کو دوسرے پلڑے میں تو یقیناً آنحضرتؑ کے ایمان کا پلڑا، اِن کے ایمان کے پلڑے سے بھاری ہوگا"۔[4]
علامہ امینی لکھتے ہیں کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے پوچھا گیا: پیغمبر اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے بعد آخری وصی کون تھا؟ آپؑ نے فرمایا: میرا باپ۔[5]
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام رحبہ میں بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ بھی آپؑ کے اردگرد۔ ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اے امیرالمومنینؑ! آپؑ ایسے مقام پر فائز ہیں جس پر آپؑ نے آپؑ کو فائز کیا ہے حالانکہ آپ کا باپ کو دوزخ کی آگ میں عذاب ہورہا ہے۔ آپؑ نے فرمایا: خاموش ہوجاو! خدا تیرا منہ توڑے، مجھے قسم اس ذات کی جس نے محمدؐ کو برحق، نبوت کے لئے بھیجا کہ اگر میرے باپ روئے زمین پر تمام گنہگاروں کی شفاعت کے لئے کھڑے ہوں تو خدا ان کی شفاعت کو قبول کرے گا۔ کیا میرے باپ کا آگ میں عذاب ہو حالانکہ ان کا بیٹا جنت و جہنم کو تقسیم کرنے والا ہو۔ قسم اس ذات کی جس نے محمدؐ کو برحق بِھیجا کہ قیامت کے دن میرے باپ ابوطالبؑ کا نور سب مخلوق کی روشنیوں کو بجھا دے گا سوائے پانچ نوروں کے، نور محمدؐ، میرانور، نور فاطمہ، نور حسن و حسین اور حسین کے امام فرزندوں کے نور، بیشک ان (ابوطالبؑ) کا نور ہمارے نور میں سے ہے جسے خدا نے آدم کی خلقت سے ۲۰۰۰ سال پہلے خلق کیا ہے۔[6]
[1] الغدیر، ج ۷، ص ۳۹۰.
[2] الغدیر، ج ۷، ص ۳۹۵۔
[3] الغدیر، ج ۷، ص ۳۹۲۔
[4] ترجمه الغدیر فی الکتاب و السنه و الادب، ج 14، ص: 351
[5] ترجمه الغدیر فی الکتاب و السنه و الادب، ج 14، ص: 350
[6] ترجمه الغدیر فی الکتاب و السنه و الادب، ج 14، ص: 348
مآخذ:
۱۔ فروغ ایمان در قلب ابوطالب علیه السلام، تصنیف: شمس الله صفرلکی۔
۲۔ حضرت ابوطالب علیه السلام پدر ولایت۔
Add new comment