مالک اشتر،  حضرت علی(علیہ السلام) کی نظر میں

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: مالک اشتر امام علی(علیہ السلام) کے خاص اصحاب میں سے تھے، ان کا شمار فقھاء میں سے ہوا کرتا تھا، تاریخ میں ان کی طرح افراد بہت کم ہیں۔ حضرت علی(علیہ السلام) نے آپ کو ایک پہاڑ سے تشبیہ دی ہے۔

مالک اشتر،  حضرت علی(علیہ السلام) کی نظر میں

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     امام علی( علیہ السلام) کا حقیقی شیعہ وہ ہے جو آپ کے بتائے ہوئے فرامین پر عمل کرے، اور آپ کے کردار کو اپنانے کی کوشش کرے، جس طرح جناب مالک اشتر، جو امام علی(علیہ السلام) کے لشکر کے سردار تھے اور ہر چیز میں امام(علیہ السلام) کی اطاعت اور پیروی کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
     جناب مالک اشتر حضرت امیرالمومنین(علیہ السلام) کے اصحاب میں نمایاں حیثیت کے حامل تھے ۔ آپ کی زندگی کے حالات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ بہت بڑے شجاع تھے۔ لیکن اس سے بھی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ آپ کی شجاعت، آپ کے صبر و استقلال پر غالب نھیں آتی تھی۔ جنگ صفین میں بھرپور شجاعت کے عالم میں منزل مقصود تک پہنچنے کے بعد صرف مولا کے حکم کی وجہ سے صبر کیا اور معاویہ کے قتل سے پرھیز کرتے ہوئے واپس چلے آئے۔ آپ کی ممتاز شخصیت تاریخ کے اوراق میں ثبت ہے اور تا قیامت ثبت رہے گی۔
     حضرت علی(علیہ السلام) بھی مالک اشتر پر خصوصی نگاہ رکھے ہوئے تھے۔ چنانچہ مختلف مقامات پر آپ نے مالک کی فضیلت اور آپ کی بے پناہ شجاعت بیان فرمائی ہے۔
     جب حضرت نے آپ کو مصر کا حاکم بناکر بھیجا، اس سے پہلے اھل مصر کو ایک نامہ لکھا جس میں آپ نے مالک کی توصیف و تعریف بیان فرمائی؛ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مالک، حضرت کے نزدیک موثق اور قابل اعتماد تھے آپ اس نامہ میں فرماتے پہں: میں نے خدا کے بندوں میں سے ایک بندے کو تہماری طرف روانہ کیا ہے، جس کی یہ صفات ہیں: خوف اور خطرے کے ایام میں اس کی آنکھوں میں کبھی نید نہیں آتی اور وہ دشمن کے ظلم و ستم اور مصائب سے خوفزدہ نہیں ہوتا اور ظالموں اور جابروں پر یہ آگ سے بھی سخت ہے۔ اس کی اطاعت کریں اور اس کی باتوں پر عمل کریں کیونکہ وہ خدا کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے۔ جس کی ضربت محکم اور اس کی دھار تیز ہے۔ اگر تمہیں کوچ کرنے کا حکم دیں تو تم لوگ کوچ کرو اور اگر قیام کا حکم دیں تو قیام کرو کیونکہ یہ اگر کسی عمل کو بجالانے کے لئے کہتا ہے وہ میرے حکم سے ہے۔ میں نے تمہارے حوالے سے اپنے اوپر اس کو ترجیح دی ہے کیونکہ تمہارے بارے میں اس کے خلوص اور تمہارے دشنموں کی مقابلے میں اس کی سرسختی سے آگاہ ہوں[۱]۔
    حضرت علی(علیہ السلام)، مالک اشتر سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ آپ نے مالک اشتر کے بارے میں فرمایا: «أَنْتَ‏ مِنْ‏ آمَنِ‏ أَصْحَابِي‏ وَ أَوْثَقِهِمْ فِي نَفْسِي وَ أَنْصَحِهِمْ وَ أَرْآهُمْ عِنْدِي‏[۲] آپ میرے باایمان اصحاب میں سے ہیں، اور آپ پر میں سب سے زیادہ بھروسہ کرتا ہوں، اور آپ کی رای کو میں سب سے زیادہ پسند کرتا ہوں»۔
    حضرت علی(علیہ السلام) نے جب آپ کی شھادت کی خبر سنی تو آپ نے  جناب مالک اشتر کے بار ے میں فرمایا: «مَالِكٌ وَ مَا مَالِكٌ لَوْ كَانَ‏ جَبَلًا لَكَانَ‏ فِنْداً وَ لَوْ كَانَ حَجَراً لَكَانَ صَلْداً لَا يَرْتَقِيهِ الْحَافِرُ وَ لَا يُوفِي عَلَيْهِ الطَّائِر[۳] مالک! اور مالک کیا شخص تھا۔ خدا کی قسم اگر وہ پہاڑ ہوتا تو ایک کوہ بلند ہوتا، اور اگر وہ پتھر ہوتا تو ایک سنگ گراں ہوتا، نہ تو اس کی بلندیوں تک کوئی پہنچ سکتا اور نہ کوئی پرندہ وہاں تک پر مار سکتا»۔ 
     خود دشمن کو بھی اس بات کا اقرار تھا کہ مالک اشتر ایک پہاڑ کے مانند تھے، جس طرح ایک پہاڑ محافظت کرتا ہے اسی طرح مالک اشتر حضرت امیر(علیہ السلام) کی محافظت کرتے تھے۔ چنانچہ جب معاویہ کو مالک اشتر کی خبر شھادت ملی تو اس نے کہا: «إِنَ‏ عَلِيّاً كَانَ‏ لَهُ‏ يَمِينَانِ قُطِعَتْ أَحَدُهُمَا بِصِفِّينَ يَعْنِي عَمَّاراً وَ الْأُخْرَى الْيَوْمَ إِنَّ الْأَشْتَر[۴] علی (علیہ السلام)) کے دو داہنے ہاتھ تھے ایک جنگ صفین میں کٹ گیا جو عمار تھے، اور ایک ہاتھ مالک اشتر تھے جو آج کٹ گیا»۔ 
     جناب مالک اشتر کی فضیلت کو آشکار کرنے کے لئے صر ف امیر المومنین(علیہ السلام) کا ایک جملہ کافی ہے، جس میں آپ فرماتے ہیں: «لقد كان لى مثل ما كنت‌لرسول‌الله(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)[۵] وہ میرے لئے اسی طرح تھا جس طرح میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے لئے تھا»۔
     حضرت علی(علیہ السلام) نے جو جناب مالک اشتر کے بارے میں جو یہ سب فرمایا، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی(علیہ السلام) کی نظر میں مالک اشتر کی کتنی اہمیت تھی۔
نتیجہ:
     مالک اشتر امام علی(علیہ السلام) سے بہت زیادہ محبت کیا کرتے تھے، اور ان کی یہ محبت صرف ان کی زبان کی حد تک محدود نہیں تھی، بلکہ  انھوں نے اپنے کردار کے ذریعہ اپنی اس محبت کا ثبوت بھی پیش کیا۔ خدا ہم سب کو معصومین(علیہم السلام) پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[1] نهج البلاغة( للصبحي صالح)، محمد بن حسين شريف الرضى، ص۴۵۱، محقق : فيض الإسلام‏،  هجرت‏، قم،۱۴۱۴ق۔
[۲] الغارات‏، ابراهيم بن محمد بن سعيد بن هلال‏ ثقفي، ج۱، ص۴۸،  محقق: حسيني، عبدا لزهراء، دار الكتاب الإسلامي‏، قم، ۱۴۱۰ق۔  
[۳] بحار الانوار، علامه مجلسى‏،  ج۴۷، ص۱۵، دار إحياء التراث العربي‏، بيروت‏، دوسری چاپ، ۱۴۰۳ق۔
[۴] گذشتہ حوالہ، ج۳۳، ص۵۹۱۔
[۵]  منهاج البراعة في شرح نهج البلاغة( خوئى)، هاشمى خويى، ميرزا حبيب الله / حسن زاده آملىٍ، حسن و كمرهاى، محمد باقر، ج۲۰، ص۱۶۲، محقق: ابراهيم ‏ميانجى، مكتبة الإسلامية, تھران، ۱۴۰۰ق۔

 

 

 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
4 + 11 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 71