حضرت عبدالمطلب کے اوصاف اور عقائد

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ:  حضرت عبدالمطلب(علیہ السلام) ان شخصیتون میں سے تھے جنھوں نے اس پرآشوب اور برائیوں سے بھرے ہوئے ماحول میں بھی اپنے آپ کو خدا کی نافرمانی سے محفوظ رکھا، خدا نے اس کا انعام ان کو ان کی بعض سنتوں کو قبول کرکے عنایت فرمایا۔

حضرت عبدالمطلب کے اوصاف اور عقائد

بسم اللہ الرحمن الرحیم
     حضرت عبدالمطلب(علیہ السلام) رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے دادا اور قریش کے رئیس تھے. مؤرخین کے مطابق وہ بتوں کے پرستش نہیں کرتے تھے اور خدای واحد پر ایمان رکھتے تھے. وہ ان سنتوں پر عمل کیا کرتے تھے کہ جس کو رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے بھی قبول کیا. وہ لوگوں کے درمیان شرافت اور فضیلت میں مشھور تھے قریش کے لوگ ان کے جود و بخشش کے سبب ان کو ’فیض‘ یا ’فیاض‘ کے نام سے بلاتے تھے. وہ ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے اس فاسد اور انسانیت سے دور ماحول میں رہنے کے باوجود اپنے آپ کو اس معاشرے کے برائیوں سے محفوظ رکھا اور کبھی بھی کسی برے فعل شراب، سود، بت پرستی وغیرہ کو انجام نہیں دیا بلکہ وہ ہمیشہ لوگوں کو ان بری عادتوں سے منع کرتے رہے، قیامت پر انکا پورا عقیدہ تھا وہ کہتے تھے: اس جہان کے بعد ایک ایسا جہان آئیگا کہ جس میں لوگوں کو ان کی اچھائیوں کا انعام اور برائیوں کی سزا ملیگی[۱]۔
     عبدالمطلب غریبوں اور محتاجوں کے مدد کیا کرتے تھے یہاں تک کے پرندے اور وحشی جانور بھی آپ کے دسترخوان سے مستفیض ہوا کرتے تھے. آپ کی راز و نیاز  اور خلوص کی وجہ سے بیابان اور صحراء میں بارش ہوا کرتی تھی. ابوطالب(علیہ السلام) اپنے والد کے بارے میں فرماتے ہیں:میرے والد شفیق اور لوگوں کے لئے پناگاہ تھے[۲]۔
     مرحوم کلینی کافی میں امام صادق(علیہ السلام) سے جناب عبدالمطلب(علیہ السلام) کے بارے میں ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ: «يحشُرُ عبدالمطلب يوم القيامه أمّةً واحدة عليه سيماء الانبياء و هيبةُ الملوك[۳] عبدالمطلب قیامت کے دن ایک امت محشور کئے جائیں گے ان کے پاس انبیاء کی نشانیاں اور بادشاہوں کی ہیبت ہوگی».
     دوسری حدیث میں شیخ صدوق رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے ایک روایت کو نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے حضرت علی(علیہ السلام) سے فرمایا: بے شک عبدالمطلب(علیہ السلام) نے جاہلیت کے زمانہ میں پانچ ایسی سنتوں کو رائج کیا جسے خداوند متعال نے قبول کیا اور اسلام میں ان کا شمار فرمایا:
۱۔ باپ کی بیوی کو بیٹوں پر حرام قرار دینا.
۲۔ اگر کسی کے ہاتھ خزانہ لگے تو اس کا خمس نکال کر اللہ کے راہ میں دینا.
۳۔ جب آپ زمزم کو کھود رہے تھے تو اسکا نام ’سقیایۃ الحاج ‘رکھا.
۴۔ قتل کی دیت ۱۰۰، شتر کو قرار دیا.
۵۔ سات دفعہ خانہ کعبہ کا طواف کرنا.
     اس کے بعد رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا: «یا على! اِنَّ عَبدُالمُطَّلِب کان لایَعبُدُ الأصنامَ وَلایَأکلُ ما ذُبِحَ عَلَى النُّصُب وَ یقولُ: أنا عَلى دِینِ إِبراهیم[۴] بے شک عبد المطلب بتوں  کی پرستش نہیں کرتے تھے اور بتوں کے لئے جس چیز کی قربانی کی جاتی تھی اسے نہیں کھاتے تھے اور کہتے تھے کے میں دین ابراہیم(علیہ السلام) پر باقی ہوں».
نتیجہ:
     جو مطالب ذکر کئے گئے ہیں ان سے یہ پتا چلتا ہے کہ حضرت عبدالمطلب(علیہ السلام) موحّد تھے اور حضرت ابرہیم(علیہ السلام) کے دین پر باقی تھے، اس جاہلیت کے زمانہ میں بھی اپنے ایمان کو بچا کر رکھا. خدا ہم سب کو اس ایمان پر باقی رکھے جسے معصومین(علیہم السلام) نے ہمیں بتایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱] علی بن برهان الدین الحلبی، السیره الحلبیه، ج۱، ص۴. http://rasekhoon.net/article/show/701888/عبدالمطلب-(1)
[۲]  أبونا شفیع الناسِ حینَ سُقوابِهِ مِنَ الغیثِ رَجّاسُ العَشیرِ بَکورُ. علی ابن حسین مسعودی، اثبات الوصیۃ، ص۱۱۰، انصاریان، ایران، قم، ۱۳۸۴ ش۔
[۳] محمد  ابن یعقوب کلینی، الکافی، ج۱، ص۴۴۷، دارالکتاب الاسلامیہ، تھران، ۱۴۰۷۔
[۴] محمد ابن علی، ابن بابویہ، من لایحضرہ الفقیہ، ج۴، ص۳۶۵، دفتر انشارات اسلامی،قم، ۱۴۱۳ھ ق۔

 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 17 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 98