خلاصہ: دنیا میں مال انسان کے کام آنے والا ہے اور آخرت میں اس کے اعمال اس کا سہارا بننے والے ہیں، جس نے اس دنیا میں نیک اعمال انجام دئے وہی آخرت میں کامیاب ہونے والا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آخرت، دنیا کے خاتمہ کا نام ہے، جہاں پر سب کو جانا ہے، لیکن وہاں پر کب اور کس طرح جانا ہے یہ کسی کو نہیں معلوم اور نہ ہی کسی کو یہ معلوم ہوگا کہ وہاں پر کب جانا ہے، اس کے بارے میں اطلاعات حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ خدا کے بھیجے ہوئے بندوں کے دامن کو تھام لیا جائے، کیونکہ انہیں اس کے بارے میں پوری خبر ہے کہ وہاں پر کون کب اور کیسے جائیگا، اسی مقصد کو مدّنظر رکھتے ہوئے اس مضمون میں امام علی النقی(علیہ السلام) نے آخرت کے بارے میں جو فرمایا ہے اس کو بیان کیا جارہا ہے۔
دنیا کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ انسان جتنا اس میں غور و فکر کرنے لگتا ہے اتنا ہی وہ اس کے ظاہر اور دھوکہ دینے والی چیزوں کے اندر جذب ہوتا چلاجاتا ہے، اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ سوائے اپنے کسی چیز کی فکر نہیں کرتا کیونکہ دنیا انسان کو کسی اور چیز کے بارے میں سونچنے کا موقع ہی نہیں دیتی، اسی لئے جو اللہ کے نیک بندے ہوتے ہیں وہ کبھی بھی اس ظاہری دنیا کی طرف جتنی توجہ دینا چاہئے اتنی ہی توجہ دیتے ہیں، بلکہ وہ لوگ دنیا کے بارے میں یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں: «إِنِّي طَلَّقْتُ الدُّنْيَا ثَلَاثا[۱] میں دنیا کو تین دفعہ طلاق دے چکا ہوں».
اسی طرح امام علی النقی(علیہ السلام)، آخرت کے بارے میں فرمارہے ہیں: «اَلنّاسُ فِى الدُّنْيا بِالاَمْوالِ وَ فِى الآْخِرَةِ بِالاَعْمالِ[۲] لوگ دنیا میں اپنے مال کے ساتھ رہینگے اور آخرت میں اپنے اعمال کے ساتھ، امام(علیہ السلام) نے اس حدیث میں واضح طور پر بیان کردیا ہے کہ دنیا اور آخرت میں بہت زیادہ فرق ہے، دنیا میں لوگوں کی نظر میں مال و ثروت کی بہت زیادہ اہمیت ہے، لیکن آخرت میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس نے اس مال کو کس طرح استعمال کیا، اسی لئے امام(علیہ السلام ) نے فرمایا ہے کہ انسان آخرت میں اپنے اعمال کے ساتھ ہوگا، اب جس طرح وہ اس دنیا میں عمل کریگا وہ اسی طرح کل قیامت کے دن محشور ہوگا،
ہماری سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ ہم آخرت کو دنیا کی نظروں سے دیکھتے ہیں حالانکہ امام(علیہ السلام) کی اس حدیث میں امام(علیہ السلام) نے واضح اور روشن طور پور بتادیا ہے کہ دنیا میں جس چیز کے حصول کے لئے تم نے ساری عمر ختم کردی اس کا تمھیں آخرت میں ذرا برابر بھی فائدہ ہونے والا نہیں ہے، یہ انسان کی سب سے بڑی غلطی ہے کہ وہ دنیا کے اعمال کو آخرت پر حمل کرتا ہے۔
خداوند متعال قرآن مجید میں انسان کے اعمال کے بارے میں ارشاد فرمارہا ہے : «وَ مَن يَأْتِهِ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصَّالِحَاتِ فَأُوْلَئكَ لهَمُ الدَّرَجَاتُ الْعُلىَ جَنَّاتُ عَدْنٍ تجَرِى مِن تحَتهِا الْأَنهْارُ خَلِدِينَ فِيهَا[سورۂ طه، آیت:۷۵-۷۶] اور جو اس کے حضور صاحبِ ایمان بن کر حاضر ہوگا اور اس نے نیک اعمال کئے ہوں گے اس کے لئے بلند ترین درجات ہیں، ہمیشہ رہنے والی جنت ّجس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے کہ یہی پاکیزہ کردار لوگوں کی جزا ہے»۔
نتیجہ:
امام علی النقی(علیہ السلام) کی اس حدیث کے ذریعہ ہمیں یہ نتیجہ ملتا ہے کہ دنیا کا مقایسہ آخرت کے ساتھ نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ دنیا مادّی اشیاء کے مجموعہ کا نام ہے اور جو انسان بغیر کسی عمل کے ان ہی مادّی اشیاء کی حد تک محدود ہوکر رہ گیا، وہ وہاں پر نقصان اٹھانے والا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱] غرر الحكم و درر الكلم، عبد الواحد بن محمد، ص۲۶۴، دار الكتاب الإسلامي، قم، دوسری چاپ، ۱۴۱۰ق۔
[۲] بحار الانوار، محمد باقر مجلسى، ج۷۵، ص۳۶۸، دار إحياء التراث العربي ،بيروت، دوسری چاپ، ۱۴۰۳ق۔
Add new comment