امام علی نقی (علیہ السلام) کی مختصر سوانح حیات

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ:امام علی نقی (علیہ السلام) سن 212 ہجری میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور سن 254 ہجری میں شہید ہوئے۔ آپ کے دوران زندگی سات(7) عباسی خلفاء ظاہری اقتدار کی مسند پر بیٹھے، جن میں سے متوکل کا زمانہ سب سے گراں گزرا۔

امام علی نقی (علیہ السلام) کی مختصر سوانح حیات

     امام علی ابن محمد(علیہ السلام) ، نویں امام حضرت محمد تقی (علیہ السلام) کے فرزند ارجمندتھے اور سن 212 ہجری میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور (شیعہ راویوں کے مطابق) سن 254 ہجری میں عباسی خلیفہ معتزکے ہاتھوں زہر سے  شہید کئے گئے[1]۔

     آپ (علیہ السلام) اپنی زندگی کے ایام میں سات(7) عباسی خلفاء؛ مامون، معتصم، واثق، متوکل، منتصر، مستعین اور معتز کے ہم عصر رہے۔ معتصم کے دور میں، سن 220 ہجری میں آپؑ کے والد بزرگوار بغداد میں  زہر کے ذریعہ شہید کئے گئے، آپؑ اس وقت مدینہ میں تھے اور امر پروردگار عالم اور گذشتہ ائمہ معصومین کے فرامین کے مطابق، منصب امامت پر فائز ہوئے اور دینی معارف کی ترویج میں مشغول ہوئے، یہاں تک کہ متوکل کا زمانہ آپہنچا۔

     متوکل نے سن 243 ہجری میں اپنے ایک کارندہ کو مامور کیا کہ امام علیہ السلام کو مدینہ سے سامراء ( جو اس وقت دارالسلطنت تھا) لے کر آئے اور انتہائی محبت اور تعظیم کے ساتھ آپؑ کو خط لکھا اور ملاقات اور سفر کا  تقاضا کیا[2]۔ اگرچہ آپؑ کے سامراء آجانےکے بعد ظاہری  طور پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی مگر اسی وقت جس طرح سے امام علیہ السلام کو پریشان کرنے اور تکلیف  دینے کے سامان فراہم کرسکتا تھا، اس میں کوتاہی نہیں کرتا تھا اور بارہا آپؑ کو قتل کرنے یا آپؑ کو تکلیف دینے کی  غرض سے آپؑ کو دربار میں حاضر کرتا تھا اور آپ کے گھر کی تلاشی لی جاتی تھی۔

     اہلبیت اطہار (علیہم السلام) کے خاندان پاک سے دشمنی کے سلسلہ میں، عباسی خلفاء کے درمیان، متوکل بے نظیر تھا، خاص طور پر امام علی (علیہ السلام) کا سخت دشمن تھا اور آشکار طور پر ناسزا الفاظ سے یاد کرتا تھا اور نقّالوں کوحکم دیتا تھا کہ اس کی عیش و نوش کی بزم میں امام والا مقام کی نقل اتارے اور اس کا سے خلیفہ لطف اندوز ہوتا تھا۔ سن237 ہجری میں اسی کے حکم سے کربلا میں امام حسین (علیہ السلام ) کے روضہ کا قبہ اور حرم کے آس پاس کے گھروں اور عمارتوں کو منہدم کردیا  گیا اور  حکم دیا کہ آپؑ کی قبر مطہر پر کھیتی کی جائے تاکہ مزار و حرم کا نام و نشان تک  باقی نہ رہے[3]۔

     متوکل ملعون کے دور میں، علوی سادات( جو حجاز میں مقیم تھے) کی صورت حال بہت ہی تشویشناک تھی، ان کی مستورات کے پردے تک کا انتظام نہیں تھا، ان میں سے بعض کے پاس کچھ پرانی ردائیں تھیں جسے وہ باری باری سے اوڑھ کر نماز ادا کیا کرتی تھیں[4] اسی طرح کی سختی اور پریشانیوں کو مصر میں مقیم شیعوں کے لئے فراہم کرتا تھا۔

     امام علی نقی(علیہ السلام)، متوکل کے ظلم و ستم کو برداشت کرتے تھے یہاں تک کہ وہ واصل جہنم ہوا اور اس کے بعد منتصر، مستعین اور معتز مسند خلافت پر آئے اور پھر معتز کی چالبازیوں کے سبب آپ(علیہ السلام) مسموم ہوئے اور شہید ہوگئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:

[1]  اصول كافى ، ج 1، ص 497 - 502. ارشاد مفيد، ص 307. دلائل الامامه ، ص 216 - 222. فصول المهمه ، ص 259 - 265. تذكرة  الخواص ، ص 362. مناقب ابن شهراشوب ، ج 4، ص 401 – 420۔
[2]  ارشاد مفيد، ص 307 - 313. اصول كافى ، ج 1، ص 501. فصول المهمة ، ص 261. تذكرة الخواص ، ص 359، مناقب ابن شهراشوب ، ج 4، ص 417. اثبات الوصيه ، ص 176. تاريخ يعقوبى ، ج 3، ص 217۔
[3]مقاتل الطالبيين ، ص 395۔
[4]مقاتل الطالبيين ، ص 395 و 396۔
ماخذ: علامہ طباطبائی کی کتاب ’’شیعہ در اسلام‘‘سے ماخوذ۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 1 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 82