خلاصہ: جناب زینب(سلام اللہ علیہا) نے اپنی پوری زندگی حیاء اور عفت کے ساتھ گذاری، اور کائنات کی تمام خواتین کو اس طرح زندگی گذارنے کا درس دیا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وراثت اور خاندان کی تاثیر انسان کی رفتار و گفتار میں ناقابل تردید ہے۔ آج یہ چیز واضح طور پر ثابت ہو چکی ہے کہ بعض اچھی اور بری صفات نسل در نسل انسان کے اندر منتقل ہوتی رہتی ہیں۔ اسی وجہ سے وہ خاندان جن میں پیغمبروں اور آئمہ معصومین(علیہم السلام) کا وجود رہا ہے, عام طور پر وہ پاک اور برائیوں سے دور ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں وراثت کے ساتھ ساتھ تربیت بھی بیان ہوئی ہے یعنی بہت ساری صفات تربیت کے ذریعہ انسان اپنے وجود میں پیدا کرسکتاہے۔
جضرت زینب(سلام اللہ علیہا) کی زندگی میں یہ دونوں عوامل( وارثت اور تربیت) اعلی ترین منزل پر موجود تھے۔
حضرت زینب(سلام اللہ علیہا) خانۂ وحی میں معصوم ماں باپ سے دنیا میں آئیں اور نبوت کی آغوش اور امامت و ولایت کے گہوارے میں نشو نما پائی۔ اور ایسی ماں کا دودھ پیا جو کائنات میں بے مثل و بے نظیر ہے۔ تو ایسی بیٹی جس نے ایسے ماحول میں تربیت حاصل کی ہو جس نے ایسی فضا میں پرورش پائی ہو اس کی شرافت و کرامت اور عفت و حیا کا کیا مقام ہو گا؟
شیخ جعفر نقدی کے بقول جناب زینب (سلام اللہ علیہا) نے پنجتن آل عبا کے زیر سایہ تربیت حاصل کی ہے: «فَالخمسة اَصْحابُ الْعَباءِ هُمُ الَّذينَ قامُوا بِتربيتِها وَتثْقيفِها وتهذيبِها وَكَفاكَ بِهِمْ مُؤَدِّبينَ وَمُعَلِّمينَ[۱] پنجتن آل عبا نے زینب کو تربیت و تہذیب اور تثقیف عطا کی اور یہی کافی ہے کہ وہ (آل عبا) ان کی تربیت کرنے والے اورانہیں تعلیم دینے والے ہیں»۔
حضرت زینب(سلام اللہ علیہا) ابتدائے جوانی میں کیسی رہی ہیں، تمام تاریخی منابع ان لمحات کی تعریف کرنے سے قاصر ہیں۔ اس لئے کہ اس دور میں انہوں نے چار دیواری کے اندر زندگی گزاری ہے۔
تاریخ نے آپ کو نہیں دیکھا اس لئے کہ حیا اس بیچ مانع تھی اور حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) یہ نصیحت کر چکی تھیں: «خَيْرٌ للنِّساءِ اَنْ لا يَرَيْنَ الرِّجالَ وَلا يَراهُنَّ الرِّجالُ[۲] عورتوں کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ مردوں کو نہ دیکھیں اور مرد انہیں نہ دیکھیں»۔
لیکن جب اسلام کی حفاظت کی نوبت آئی تو یہی حضرت زینب(سلام اللہ علیہا) جو حیاء اور عصمت کے حصار میں رہا کرتی تھی انھوں نے اپنی حیاء کو اللہ کے دین پر قربان کردیا، کیونکہ جناب زینب(سلام اللہ علیہا) نے امام حسین(علیہ السلام) سے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا یہ قول سن رکھا تھا: «إِنَّ اللَّهَ قَدْ شَاءَ أَنْ يَرَاهُنَ سَبَايَا[۳] اللہ ان عورتوں کو اسیر دیکھنا چاہتا ہے»۔
جناب زینب(سلام اللہ علیہا) کو جب اسیر کر کے دار الخلافہ لے جایا گیا، ابن زیاد نے پوچھا: یہ عورت کون ہے؟ کسی نے اس کا جواب نہ دیا۔ تین بار اس نے سوال تکرار کیا۔ یہاں تک کہ ابن زیاد ملعون نے جناب زینب(سلام اللہ علیہا) کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے کہا: کيْفَ رَاَيْتِ صُنْعَ اللّهِ بِاَخيكِ وَاَهْلِ بَيْتِكِ؛ تم نے کیسا دیکھا جو اللہ نے تمہارے بھائی اور اہلبیت کے ساتھ کیا؟
جناب زینب نے مکمل آرام و سکون اور کمال تامل کے ساتھ ایک مختصر اور نہایت خوبصورت جواب دیتے ہوئے فرمایا: ما رَأيْتُ اِلاّ جَميلاً؛ میں نے خوبصورتی اور زیبائی کے علاوہ کچھ نہیں تھا[۴]۔
جناب زینب نے ابن زیاد ملعون کا منہ توڑ جواب دے کر کفر و استبداد کے منہ پر ایسا طمانچہ مارا جسے قیامت تک تاریخ فراموش نہیں کر سکتی۔
نتیجہ:
جناب زینب(سلام اللہ علیہا) کی زندگی کو دیکھ کر ہمارے ماں بہنوں کو یہ درس حاصل کرنا چاہئے کہ عورت کو کس طرح حیاء اور پاکدامن کے ساتھ زندگی گذارنی چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱] عوالم العلوم و المعارف والأحوال من الآيات و الأخبار و الأقوال( مستدرك سيدة النساء إلى الإمام الجواد)، عبد الله بن نور الله، بحرانى اصفهانى، ج۱۱،ص۹۴۹، مؤسسة الإمام المهدى عجّل الله تعالى فرجه الشريف، ايران، قم،۱۴۱۳ق۔
[۲] بحار الانوار ، علامه مجلسى، ج۴۳، ص۵۴، دار إحياء التراث العربي، بيروت، دوسری چاپ، ۱۴۰۳ق۔
[۳] گذشتہ حوالہ، ج۴۵، ص۱۱۵۔
[۴] اللهوف على قتلى الطفوف(ترجمه فهرى)، على بن موسى، ابن طاووس، ص۱۵، جهان، ۱۳۴۸ش۔
Add new comment