خلاصہ: رضائے الہی پر راضی ہونے اور اس کے ہر فیصلہ پر شاکر ہونے کا حسین سلیقہ جناب زینب نے اپنے کردار کے ذریعہ سے بہترین انداز میں سکھایا ہے۔
ایک انسان اس وقت حقیقی طور پر عبد خدا کہلانے کا حقدار ہوتا ہے جب وہ مکمل طور پر رضائے خدا کا پیروکار اور اس کے ہر فیصلے پر شکرگزار ہو۔ بظاہر ہر کوئی اپنے کو اس منزل پر دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ خدا کی رضا پر راضی ہو اور اس کے فیصلے پر شاکر بھی اور خدا پر اعتقاد رکھنے والا کوئی بھی شخص اپنی ذات سے اس عنوان کو دور ہوتے ہوئے یا دور کرتے ہوئے پسند نہیں کرتا ہے۔
لیکن کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ کیا ہر کوئی قلبی طور پر اس کیفیت اور حالت کا حامل ہے؟ اس بات کا جواب حاصل کرنے کے لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس صفت کے سلسلہ میں اپنی آگاہی میں اضافہ کریں اور سمجھیں کہ مقام رضائے پروردگار کسے کہتے ہیں اور اس مقام کے کیا تقاضے ہیں۔
ہم اس مختصر مضمون میں صرف اس بات کی جانب اشارہ کرنا چاہتے ہیں کہ جناب زینب (سلام اللہ علیہا) کے القاب میں سے ایک ’’ الراضیۃ بالقدر و القضاء‘‘ ہے[۱] جس کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ خدا کی رضا اور فیصلے پر راضی رہنے والی۔
جناب زینب (سلام اللہ علیہا) کی زندگی کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اس لقب کا واقعی مصداق آپ(سلام اللہ علیہا) کی ذات گرامی ہے کیونکہ آپ نے خداوند عالم کے ہر فیصلے کے مقابلہ میں احسن طریقہ سے سرتسلیم خم رکھا اور جو بھی رضائے الہی ہوتی تھی اگرچہ تلح ہی کیوں نہ رہی ہو اسے ایک خوشگوار اور شیریں شربت کی طرح اپنے دل و جان شے نوش فرمایا۔
مقام و منزلت کے اعتبار سے آپ(سلام اللہ علیہا) اس منزل پر تھیں کہ مخلوقات عالم ان کی خدمتگزار رہے لیکن اس کے باوجود مصائب و آلام کے وہ سنگین پہاڑ کہ جس کا ایک ذرہ بھی اگرظاہری پہاڑوں پر پڑتا تو وہ چور ہوتے نظر آتے لیکن انہیں سنگین مصائب و آلام کو’’مَا رَأَيْتُ إِلَّا جَمِيلا ‘‘(میں نے سوائے اچھائی اور خوبصورتی کے کچھ دیکھا ہی نہیں)[۲] کہتی ہوئی خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہوئے شکر خدا بجا لاتی رہیں اور اپنی ہر قربانی کے سلسلہ میں بارگاہ رب العزت میں’’الهی تقبل منا هذا القربان ‘‘(الہی! ہم سے اس قربانی کو قبول فرما)[۳] کہہ کر دعا کرتی رہیں۔
خداوند عالم ہم سب کو جناب زینب (سلام اللہ علیہا) کی معرفت عطا کرے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عنایت کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[۱] خصایص زینبیہ، سید نور الدین جزائری، چھٹی خصوصیت۔
[۲] لھوف صفحہ ۱۶۰۔
[۳]علامه سید عبدالرزاق مقرم، مقتل الحسین صفحہ ۳۷۹۔
Add new comment