چکیده: مستحب عبادتوں میں سے ایک نماز شب ہے کہ جسکے انجام دینے کے لئے روایات و احادیث میں بہت تاکید کی گئی ہے۔ روایات میں ذکر ہوا ہے کہ یہ نماز انسان کے گناہوں کے لئے کفارہ کا کام کرتی ہے اور اس کے پڑھنے سے چہرہ نورانی ہوتا ہے، بدن سے خوشبو آتی ہے دیگر بہت سے فضائل اس نماز کے بیان کئے گئے ہیں۔
اسمیں کوئی شک نہیں ہے کہ تقرب الہی کے حصول اور کمالات و بلندی پر پہنچنے کا سب سے بڑا وسیلہ عبادت ہے، جو بھی انسان اس مقام اور منزلت تک پہنچا ہے، اسی کے ذریعہ پہنچا ہے۔
معنی عبادت؛ علماء لغت نے عبادت کے معنی، خدا کے حضور خضوع و خشوع اور اس کے احکام کے سامنے سر تسلیم جھکانے اور اظہار ذلت کو بتایا ہے۔ عبادت کا دامن بہت وسیع ہے، کبھی عبادتیں افعال کو انجام دیکر کی جاتی ہیں جیسے نماز و روزہ و حج وغیرہ اور کبھی کچھ چیزوں کو ترک کر دینے کا نام عبادت ہے مثلا ترک گناہ وغیرہ جو کہ انسان کے لئے کمال کی منزل پر پہونچنے کے لئے بہت اہم ثابت ہوتا ہے۔
کچھ عبادتیں واجب ہیں جنکا انجام دینا ہر مسلمان کا عینی فریضہ ہے اور کچھ عبادتیں مستحب ہیں کہ جسے انجام دینا قرب الہی میں زیادتی کا باعث ہوتی ہیں اور انھیں مستحب عبادتوں میں سے ایک نماز شب ہے کہ جسکے انجام دینے کے لئے روایات و احادیث میں بہت تاکید کی گئی ہے۔ روایات میں ذکر ہوا ہے کہ یہ نماز انسان کے گناہوں کے لئے کفارہ کا کام کرتی ہے اور اس کے پڑھنے سے چہرہ نورانی ہوتا ہے، بدن سے خوشبو آتی ہے دیگر بہت سے فضائل اس نماز کے بیان کئے گئے ہیں۔
یہ وہ عبادت ہے جو تقرب الہی کے حصول میں مؤثر ثابت ہوتی ہے۔عام حالات میں اس کا پابند ہونا آسان ہے لیکن مشکلات کے ساتھ ساتھ اس عبادت کی انجام دہی یقینا ایک سخت کام ہے لیکن یہ خصوصیت ایک ایسی خاتون میں پائی جاتی ہے جو خود تو چودہ معصومینؑ کی فہرست میں نہیں تھیں لیکن جس طرح فصاحت و بلاغت میں اپنے پدر بزرگوار کی شبیہ تھیں اسی طرح عبادت و بندگی میں بھی انہیں کی مثل تھیں۔ وہ ذات با برکت، وارث کربلا و محافظ پیغام حسینی حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی ہے۔ آپ ؑکے بارے میں بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ آپؑ سے نماز تہجد اور شب زندہ داری کا سلسلہ کبھی نہیں ترک ہوا یہاں تک کہ شام غریباں میں بھی امام سجادؑ سے نقل ہے کہ آپؑ نے فرمایا: اس رات(شام غریباں) میں بھی میں نے اپنی پھوپھی جناب زینب سلام اللہ علیہا کودیکھا کہ مشغول عبادت ہیں۔
جناب زینب سلام اللہ علیہا کا نماز شب کی پابند ہونے کا اندازہ، امام حسینؑ کے اس فقرہ سے لگایا جا سکتا ہے جو امامؑ نے رخصت ہوتے وقت فرمایا تھا: ’’ يا أختاه لا تنسيني في نافلة الليل ‘‘ ( اے بہن مجھے نماز شب میں فراموش نہ کرنا)۔ (1) امامؑ یہ اپنی بہن سے التماس نہیں کر رہے ہیں بلکہ دنیا والوں کو جناب زینب سلام اللہ علیہا کے عابدۂ شب زندہ دار ہونے کی اطلاع دے رہے ہیں۔
حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے سلسلہ میں، دختر امام حسینؑ (فاطمہؐ) سے نقل ہوا کہ انہوں نے فرمایا: اس رات میری پھوپھی استغاثہ میں مشغول تھیں اور اس رات ہم میں سے کوئی بھی نہیں سویا اور نہ ہی کسی کے نالہ و شیون کی صدا قطع ہوئی’’ وروي عن ابنة أخيها فاطمة بنت الحسين قولها : « وأما عمتي زينب فإنها لم تزل قائمة في تلك الليلة في محرابها تستغيث الى ربها فما هدأت لنا عين ولا سكنت لنا رنة ‘‘(2) یہ اس وقت کی بات ہے جب امام حسینؑ زندہ تھے اور آپ سر زمین کربلا پر تھیں لیکن بعد حسینؑ جب ظالمین آپ کو اسیر کر کے کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام لے جا رہے تھے تو کیا آپ نے نماز شب اور دیگر عبادتوں کو جاری رکھا؟ جی ہاں! ایسے سخت ماحول میں بھی آپ نے اپنے مالک سے راز و نیاز کے سلسلہ کو منقطع نہیں کیا، جس کی توضیح امام سجادؑ اس طرح دیتے ہیں’’ ان عمتی زینب کانت تؤدی صلواتھا من قیام الفرائض و النوافل الخ۔۔۔‘‘ میری پھوپھی زینب سلام اللہ علیہا کوفہ و شام کے اس پر مشقت راستہ اور سفر میں اپنی واجب اور مستحب نمازوں کو بھی کھڑی ہو کر اور کبھی بیٹھ کر پڑھتی تھیں اور یہ کیفیت ان میں بھوک کی بنا پر پید ہوئی تھی کیونکہ تین راتیں ہو چکی تھیں کہ جو کھانا ان کو دیا جاتا تھا، آپ اس کو بچوں کو کھلا دیتی تھیں کیونکہ وہ سنگ دل لوگ ہم کو ہر شب و روز میں ایک روٹی سے زیادہ نہیں دیتے تھے۔(3)
یہ روایات جہاں حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی بندگی و اطاعت کی بلند مثال ہمارے سامنے پیش کرتی ہیں وہیں ان کے اس عظیم مرتبہ کا بھی پتہ دیتی ہیں، آپ ائمہ ہدی ؑ حضرات کے نزدیک رہتی تھیں جس نے آپ کی نورانی شخصیت میں اور درخشندگی پیدا کر دی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) ( أدب الطف ) جواد شبر ج 1 ص 242 .
(2) ( زينب الكبرى ) النقدي ص 62 .
(3) كتاب «زينب الكبرى» للشيخ جعفر النقدي ، ص 59 .
Add new comment