امین الحسینی نے پوری کوشش کی کہ عالم اسلام کو اس جنگ و اختلاف میں شامل کرسکے اور خود کو عالم اسلام کے رھبر کے طور پر پیش کرے مگر یہ رھبری اور لیڈری شپ، سرزمین حجاز پر موجود حرمین شریفین کے متولی ابن سعود کیلئے جو خود کو عالم اسلام کا رھبر و لیڈر سمجھ رہے تھے گراں اور نا قابل تحمل تھی۔
ابن سعود نے دینی لحاظ سے سعودیہ عربیہ کی بنیاد، وہابی افکار و نظریات پر رکھی ، وہابیت ایک متعصب اور شدت پسند مذھب ہے کہ وہ جسے بھی مشرک اور اسلام سے منحرف جانتے ہیں پوری شدت اور خشونت کے ساتھ پیش آتے ہیں ۔
بعض صہیونی لیڈرس، مغربی سیاستمدار افراد اور محققین معتقد ہیں کہ سعودیہ عربیہ میں کوئی بھی یہودی گروپ موجود نہیں تھا اور ابن سعود اپنی دینی کتابوں اور منابع میں موجود ناقص معلومات کے سوا کچھ بھی نہیں جانتے تھے مگر اس سلسلہ میں یہ کہنا نہایت ہی مناسب ہے کہ صہیونیوں سے آل سعود کی ابتدائی مخالفت کی بنیاد غیر دینی تھی اور وہ مشرق وسطی میں سعودیہ عربیہ کے منافع کو لاحق، خطرات ہیں۔
برطانیہ سے تعاون ابن سعود کے بنیادی اصول، اھداف و ترجیحات میں سے تھے کیوں کہ برطانیہ تنہا وہ بیرونی ملک تھا جس کا علاقہ میں سیاسی اثر و رسوخ اور اس کی فوجیں علاقہ کے مختلف حصہ میں موجود تھیں نیز فلسطین کی سرپرستی برطانیہ کے ذمہ تھی۔
ابن سعود نے چار عشرہ تک برطانیہ سے اپنے تعلق بہتر اور مستحکم بنانے پر صرف کئے اور ان کے مالی تعاون سے مستفید ہوتے رہے، عراق اور مشرقی اردن پر برطانیہ کی حکمرانی تھی جن کی زمین سرحدیں سعودیہ عربیہ اور فلسطین سے ملتی تھیں ، نیز بہت سارے ممالک جن کے حجاج پٹرول کی برآمدات سے پہلے سعودیہ عربیہ کا مالی بجٹ فراہم کرتے تھے، برطانیہ کے زیر تسلط تھے ۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔
گذشتہ قسطیں یہاں پڑھیں
http://www.ur.btid.org/node/6404
http://www.ur.btid.org/node/6406
Add new comment