اصحاب
امام حسین علیہ السلام نے ۲۸ رجب المرجب سن ۶۰ ھجری کو مدینہ منورہ سے اپنے سفر کا اغاز کیا اور وہاں سے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے ، چار ماہ تک مکہ مکرمہ میں رہے اور اپ نے عین عرفہ کے دن اپنے حج کو عمرہ سے بدل کر مکہ چھوڑ دیا چونکہ کچھ یزیدی حاجیوں کے بھیس میں اپ کا خون بہاکر بیت اللہ الحرام کی حرمت کو
امام حسین علیہ السلام کے اصحاب میں مختلف طبقات کے شھداء موجود ہیں ، وہ اصحاب جن کے سلسلہ میں امام علیہ السلام نے فرمایا: إني لا أعلم أصحاباً ولا أهل بیت أبرّ ولا أوصلَ من أصحابي وأهلِ بیتي ؛ میں اپنے اصحاب اور اہل بیت علیھم السلام سے متقی اور مخلص اصحاب اور اہل بیت نہیں دیکھے ۔ (۱)
امام حسین علیہ السلام اپنے زمانے کے عبادت گزار ترین فرد تھے ، اپ کے اہلبیت اور اصحاب وفا علیہم السلام بھی ایسے ہی تھے ۔
امیرالمؤمنین على ابن ابی طالب علیہ السلام نے فلسفہ بعثت رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : «فَبَعَثَ فیهِمْ رُسُلَه، وَ وَاتَرَ اِلَیْهِمْ اَنْبِیَائَهُ، لِیَسْتَاْدُوهُمْ مِیثاقَ فِطْرَتِهِ، وَ یُذَکِّرُوهُمْ مَنْسِىَّ نِعْمَتِهِ وَ یَحْتَجُّوا عَلَیْهِمْ بِالتَّب
چونکہ حجة الوداع مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کا اخری حج تھا اسی بنیاد پر صحابہ کی بڑی اور کثیر تعداد اس حج میں نبی (ص) کے ھمراہ تھی ، صحابہ کے عظیم جم غفیر کی موجودگی میں مقام غدیر خم پر امیرالمومنین علی ابن طالب علیہ السلام کی ولایت و خلافت کا اعلان وہ اہم مسئلہ ہے جسے چاہ
عثمان کو قتل کرنے والے چھ افراد کا تعلق اصحاب شجرہ یعنی بیعت رضوان سے تھا؛ عدالت صحابہ کے اثبات کی خاطر بیعت رضوان کو بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے لیکن اس بات کے مدّ نظر اہل تشیع کا بیان بالکل درست ہے کے بعض صحابہ عادل ہیں نہ کہ سب کہ سب۔
شیعہ عقیدے کے مطابق رسول اللہ کے صحابہ دوسرے افراد کی مانند ہیں صرف صحابی ہونے کی بنا پر انکی عدالت ثابت نہیں ہوتی ہے نظریہ ٔعدالت صحابہ کی بنا پر کہنا چاہئے کہ اگر صحابی ہونا گناہ سے مانع ہے تو پھر عبیداللہ بن جحش ، عبیداللہ بن خطل ،ربیعہ بن امیہ بن خلف اور اشعث بن قیس جیسے اصحاب مرتد کیوں ہو گئے۔
صحابہ مسلمانوں کی اس جماعت کو کہا جاتا ہے کہ جنہوں نے رسول اللہ کی زیارت کی ہو اور آخر عمر تک ایمان پر باقی رہے ہوں،اہل سنت کے عقیدے کے مطابق تمام صحابہ عادل تھے اور اگر ان سے کبھی کوئی غلطی کا ارتکاب دیکھا جائے تو وہ اسے خطائے اجتہادی کے نام سے تعبیر کرتے ہیں اہل تشیع حضرات کے نزدیک اصحاب رسول خدا (ص)دوسرے مسلمانوں کی ہی مانند ہیں؛اور ہر صحابی کی عدالت معتبر طریقے سے ثابت ہونی چاہیے۔