معرفت
امام امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں: اَزْرٰى بِنَفْسِهٖ مَنِ اسْتَشْعَرَ الطَّمَعَ، وَ رَضِیَ بِالذُّلِّ مَنْ كَشَفَ عَنْ ضُرِّهٖ، وَ هَانَتْ عَلَیْهِ نَفْسُهُ مَنْ اَمَّرَ عَلَیْهَا لِسَانَهٗ.(١) جس نے طمع کو اپنا شعار بنایا اس نے اپنے کو سبک کیا اور جس نے اپنی پریشانی کا اظہار کیا وہ ذلت
قرآن مجید کے معارف کی سنگینی اس قدر زیاده ہے کہ اسے سنبھالنے کے لیے پیغمبر(ص) کا قلب درکار ہے۔
امیر المؤمنین علیه السلام:
«اِنَّ الْحِکْمۃُ اَلْمَعْرِفۃُ وَ التَّفَقُّهُ فِی الدِّینِ»
یقیناً حکمت، معرفت حاصل کرنا اور دین شناس ہونا ہے۔
[بحارالانوار، ج 1، ص 215]
خلاصہ: بندگانِ خالص، خالقِ کائنات کی مخلصانہ عبادت کے ذریعے اپنی روح کو جلا اور صفا بخشتے ہیں، تعلق باللہ سے پھوٹنے والے صاف و شفاف چشمے کے پانی سے اپنا قلب دھوتے، چمکاتے اور نورانی کرتے ہیں۔
خلاصہ: جب تک خدا اپنی معرفت عطا نہ کرے تب تک ہم اس کے رسول کی شناخت حاصل نہیں کر سکتے اور جب تک رسول کو نہیں پہچانیں گے، اس وقت تک رسول کے جانشین کی معرفت کو حاصل کرنا اور اس پر ایمان رکھنا آسان نہیں ہے۔