قرآن مجید کے معارف کی سنگینی اس قدر زیاده ہے کہ اسے سنبھالنے کے لیے پیغمبر(ص) کا قلب درکار ہے۔
قرآن مجید کی سنگینی کا اندازہ لگانا ہے تو سورۂ حشر کی اس آیت پر غور فرمائیں جس میں ارشاد ہے: لَوْ أَنزَلْنَا هَـٰذَا الْقُرْآنَ عَلَىٰ جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللَّـهِ ۚ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ؛اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر نازل فرماتے تو (اے مخاطب!) تو اسے دیکھتا کہ وہ اﷲ کے خوف سے جھک جاتا، پھٹ کر پاش پاش ہوجاتا، اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لئے بیان کر رہے ہیں تاکہ وہ غور و فکر کریں۔[سورة الحشر۲۱]۔
آیت میں حرف ’’لو‘‘ اشارہ ہے کہ قرآن کا پہاڑ پرا تار دینا ناممکن تھا اس لئے کہ پہاڑ میں اس قدر قوت تحمل نہیں ہوتی ہے کہ اس کے معنی اور معارف کا وزن برداشت کر سکے اور یہیں سے انداز ہوتا ہے کہ جس قلب پیغمبر(ص) پر اتارا گیا ہے اس میں کسی قدر ہمت اور طاقت پائی جاتی ہے کہ پورے قرآن کے وزن کو برداشت کرلیا اور پھر نبی(ص) کے بعد وہ افراد کیسے قوی القلب اور باصلاحیت ہوں گے جنھیں حقائق قرآن کا مرکز قرار دیا گیا ہے، اور شائد اسی نکتہ کی طرف اشارہ کرنے کے لئے سرکار دو عالم(ص) نے قرآن اور اہلبیت(ع) دونوں کو ثقلین سے تعبیر کیا تھا کہ دونوں کی سنگینی ایک جیسی ہے اور دونوں ایک دوسرےکے واقعی اہل اور مرکز ہیں اور ایک دوسرے کے وزن کو برداشت کر سکتے ہیں۔
بیشک اگر قرآن اس قد رسنگین ہے کہ پہاڑ پر نازل ہو جائے تو پہاڑ ٹکڑےٹکڑے ہو جائے تو وارثان قرآن کو اس قدر طاقت اور قوت کا مالک ہونا چاہیے کہ بقول نصاریٰٔ نجران پہاڑ سے کہہ دیں کہ اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو ایک حرف دعا سے ہٹ سکتا ہے۔
Add new comment