دشمنی
انبیا الھی صلوات اللہ علیھم اور بزرگ شخصیتیں اپنے نظریات اور افکار کو فقط و فقط تحریروں ، کتابوں ، متون اور تعلیم سے مخصوص نہیں جانتے بلکہ یہ افراد اپنے نظریات اور افکار کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے میدان عمل میں اتر جاتے ہیں البتہ ان افکار و جامہ عمل پہنانے کی وسعت صاحب نظر کے منزلت اور مقام پر
امیرالمؤمنین علیه السلام:
«لِيَكُنْ أَبْغَضُ اَلنَّاسِ إِلَيْكَ وَ أَبْعَدُهُمْ مِنْكَ أَطْلَبَهُمْ لِمَعَائِبِ اَلنَّاسِ»
تمہارے نزدیک سب سے زیادہ مبغوض ترین اور دور رہنے والا وہ شخص ہونا چاہیے جو لوگوں کے عیبوں کو تلاش کرتا ہو
ایسے افراد کی صفات کو پہچاننا کہ جنمیں خدا کی پھٹکار کی نشانیاں موجود ہوں ضروری ہے تاکہ ایسے افراد سے دوری بنائی جاسکے کیونکہ اللہ ایسے افراد کی قربت کو پسند نہیں فرماتا۔
مومن کی دوستی اور دشمنی کا پیمانہ خداوند سبحان ہے اس لئے وہ ہمیشہ ہوشیار اور بیدار رہتا ہے، اپنے سارے راز، دل کی باتیں اپنے جگری دوست سے بھی نہیں کہتا کہ اس کا اصل محبوب اس کا رب ہے اور مؤمن اختلاف، نزاع و جھگڑے میں اپنے اخلاق و ایمان سے محروم ہونے والے اعمال نہیں کرتا کہ اس کا دشمن انسان نہیں شیطان ہے اور ساری نفرت اور جنگ اسی سے ہونی چاہئے۔
خلاصہ: اہل بیت (علیہم السلام) کے دشمن ہر زمانے میں بھرپور کوشش کرتے رہے کہ کبھی برملا دشمنی سے اور کبھی منافقانہ طریقے سے، شہید کردیں، امام جواد (علیہ السلام) سے مامون اور معتصم نے چھپ کر منافقانہ سازشوں کے ذریعے دشمنی اختیار کی۔