خلاصہ: اہل بیت (علیہم السلام) کے دشمن ہر زمانے میں بھرپور کوشش کرتے رہے کہ کبھی برملا دشمنی سے اور کبھی منافقانہ طریقے سے، شہید کردیں، امام جواد (علیہ السلام) سے مامون اور معتصم نے چھپ کر منافقانہ سازشوں کے ذریعے دشمنی اختیار کی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
دشمنوں کی شیطانی پالیسیاں
جیسا کہ تاریخ اس بات کی اپنے ہر صفحہ پر گواہی دیتی ہے کہ اللہ تعالی کی جانب سے جو بھی نبی، رسول اور امام آیا اور اس نے لوگوں کی ہدایت کرنا چاہا تو اس دور کے حکمرانوں نے ظالمانہ طریقوں، منافقانہ سازشوں اور حق و باطل کی ملاوٹ سے جنم لی ہوئی پالیسیوں کے ذریعے اللہ تعالی کی ان حجتوں سے شدید مقابلہ کرتے ہوئے پوری کوشش کی کہ ان کی تبلیغِ دین کی روک تھام کریں اور اگر روک تھام کرنے سے عاجز ہوگئے تو آخرکار حجت پروردگار کو شہید کردیا۔
ان ظالم حکمرانوں اور باطل کو معاشرے میں شائع کرنے والے مالدار طبقے اور جاہل دنیاپرست خیانتکاروں جو مال کی لالچ میں حکمرانوں کے حکم کے سامنے جھکے ہوتے تھے، اور غیرانسانی سیاستوں اور فساد کو بڑھانے والی پالیسیوں کا پشت پناہ اور نگران وہ شیطان ہے جس نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں قسم کھائی ہے کہ سوائے مخلَصین سب انسانوں کو مختلف طریقوں سے گمراہ کرے گا۔
لہذا قابیل سے لے کر ابوجہل تک اور اس سے لے کر آج کے اسرائیل، امریکہ اور داعش تک، یہی انسانوں کا ازلی دشمن اپنی بھرپور کوشش کر رہا ہے کہ سب انسانوں کو حق سے دور کرتے ہوئے ان کے درمیان فتنہ و فساد اور جنگ و خونریزی کروائے۔
دشمنوں کی شیطانی پالیسیوں کے مختلف روپ
اس دشمنی کا واضح ثبوت یہی ہے کہ ہر حجت خدا کا کسی ایسے دشمن سے سامنا ہوا جس نے خدا کے دین سے جنگ کی اور لوگوں کی اس حجت الٰہی کی فرمانبرداری کرنے کے سامنے رکاوٹیں پیدا کیں یہاں تک کہ دشمن تو دشمن، قریبی دوست بھی دشمن بن گئے، سب سے قریبی رشتہ داروں نے عداوت اختیار کرلی، رشتہ داروں میں سے قریب ترین افراد یعنی اولاد اور زوجہ نے اس قدر دشمنی کی کہ حجت پروردگار کو مختلف طریقوں سے مثلاً زہر پلانے سے شہید کرنے کے لئے تیار ہوگئے اور دشمن کی سازشوں کی بنیاد پر لالچ کا شکار ہوتے ہوئے، آخر کار زہر پلا دی۔
ادھر ظالم حکومتوں کا سلسلہ یکے بعد دیگرے جاری رہا، کسی دشمن نے کھلم کھلا دشمنی اختیار کی جیسے معاویہ اور یزید نے حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) اور امام حسن اور امام حسین (علیہما السلام) سے عداوت کی اور بعض دشمنوں نے حالات کے خطروں کے خوف سے پس پردہ رہ کر اور ظاہر کا خیال رکھتے ہوئے دشمنی کی، مگر دل میں دشمنی کی آتش نمرودی، شب و روز اس طرح بھڑکتی رہتی تھی کہ بعض اوقات اس کے شعلے لپک لپک کر زبان اور عمل میں ظاہر ہوجاتے، منافقت کا پردہ چاک ہوجاتا، درندوں کی حقیقی درندگی انسانی لبادہ اوڑھے جانے کے باوجود اچھل کر سامنے آجاتی اور اس دشمنی کے انگاروں کی جلن رونما ہوجاتی، محبت کا اظہار کرتے کرتے بات قتل کرنے تک پہنچ جاتی اور بیٹی کا رشتہ دے کر درحقیقت قتل کی سازش کی جاتی تھی، ولی عہد بنا کر اور چچازاد بھائی کہہ کر بھی زہر کا جام پلایا گیا اور علمی اور مناظراتی محفلیں منعقد کرکے حرمت پامال کرنے کی پرزور کوشش کی گئی، جیسے مامون الرشید اور معتصم کی امام علی رضا (علیہ السلام) اور امام محمد تقی (علیہ السلام) سے بے حد دشمنی۔
ظالموں اور مظلوموں کا سلسلہ جاری
نیز دشمنوں کا سلسلہ اس طرح بھی جاری رہا کہ ایک نے حجت الٰہی کو شہید کیا تو اس کے بیٹے یا جانشین نے اس حجت الٰہی کے بیٹے کو شہید کیا۔ ان میں سے ایک ہارون الرشید ہے جس نے حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) کو شہید کیا، ہارون کے بیٹے مامون نے امام موسی کاظم (علیہ السلام ) کے فرزند حضرت علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) کو شہید کیا، اس کے بھائی معتصم نے حضرت امام رضا (علیہ السلام) کے فرزند حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) کو شہید کیا اور وہ بھی آنحضرتؑ کی زوجہ کے ذریعہ زہر دلوائی، وہی زوجہ جس نے آنحضرتؑ سے عداوت و دشمنی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔
تاریخ کے اوراق ایسے سیاہ دھبوں سے شرمندہ ہیں کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سبط اکبر حضرت امام حسن مجتبیٰ (علیہ السلام) کو اسی طرح کی سازش کے ذریعہ شہید کیا گیا اور سلسلہ امامت میں حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) دوسرے امام ہیں جن سے دشمن نے خفیہ دشمنی کی انتہا کردی کہ آپؑ کے جان لیوا دشمن کو اصرار کے ساتھ آپؑ کی شریکہ حیات بنا دیا جس نے زہر پلا کر شہید کردیا۔ ان دو عورتوں کو قرآن نے جو حضرت نوح اور حضرت لوط (علیہما السلام) کی بیویوں کی مثال پیش کی، وہ مثال بھول نہیں گئی تھی بلکہ دل میں دشمنی اس طرح بھڑک رہی تھی کہ فرمان الٰہی کے سامنے دل پر فقل پڑگئے یہاں تک کہ قرآن کریم کی واضح مثال کو نظرانداز کردیا۔
دشمن کے مقابلے میں معصومؑ کی حکمت عملی
یہ دشمن اگرچہ اپنی تمامتر کوشش کرتے رہے کہ آفتاب امامت کو بجھا دیں مگر کیونکہ امامت کا پشت پناہ اور محافظ اللہ تعالیٰ ہے اور ائمہ اطہار (علیہم السلام) تدبیر الٰہی کے عین مطابق عمل کرتے ہیں تو جو برتاؤ اہل بیت (علیہم السلام) اپنے دشمنوں سے کرتے ہیں وہ بالکل صحیح ہوتا ہے اور اس سے آگے بڑھنا یا پیچھے رہ جانا یا کوئی اور راستہ اختیار کرلینا امامت سے ایک طرح کی نظریاتی یا عملی مخالفت ہے، لہذا اہل بیت (علیہم السلام) کے شیعوں اور محبوں کو انتہائی گہری سوچ کے ساتھ ہوشیار رہنا چاہیے کہ اس امتحان کے کسی موڑ پر حکمِ امامؑ سے اِفراط و تفریط اور کمی بیشی کا ارتکاب نہ کربیٹھیں، کیونکہ اس کا نقصان ان کو بھی ہوگا اور دوسرے شیعوں کو بھی ٹھیس پہنچے گی، کیونکہ امامؑ کا حکومت سے برتاؤ کا کوئی بھی طریقہ اختیار کرنا معاشرے کی دینی سلامتی کے لئے ہوتا ہے، تو ان اصول کی مخالفت دینی سماج کی سلامتی کے نقصان کا باعث بنے گی۔
تاریخ کی ورق گردانی سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ مامون، سیاستمدار، خونریز، دنیاپرست اور ظاہرساز تھا، کیونکہ اس نے امام رضا (علیہ السلام) کو شہید کیا تھا اور بہت سارے شیعوں کی مخالفت کی زد میں تھا، اسی لیے وہ امام محمد تقی (علیہ السلام) سے ماہرانہ اور خائنانہ طور پر محبت کا اظہار کرتا تھا اور کوشش کرتا تھا کہ غیرمحسوس طور پر اور واسطہ کے ذریعہ امامؑ کو اپنے زیرنظر قرار دے، لیکن کیونکہ امام کا علم، علیم بذات الصدور اللہ کی طرف سے ہوتا ہے تو مامون کی دشمنی حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) کی گہری نظر سے چھپی ہوئی نہیں تھی، لہذا آپؑ اصرار کے ساتھ بغداد سے کوفہ اور پھر مدینہ پلٹ آئے۔
استاد عادل ادیب اس سلسلے میں تحریر فرماتے ہیں: جب مامون، امام جواد (علیہ السلام) کو بغداد یا دارالخلافت میں لے گیا تو امامؑ نے اصرار کیا کہ مدینہ واپس چلے جائیں، مامون نے (ناچار ہوتے ہوئے) اس بات کو قبول کیا اور آنحضرتؑ مدینہ لوٹ گئے اور اپنی زیادہ تر مبارک زندگی مدینہ میں گزاری۔[1]
معصومؑ سے دشمن کی حددرجہ دشمنی، منافقت کے پردے میں
مامون، اپنی بیٹی ام فضل کی حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) سے شادی کرنے اور پھر آنحضرتؑ کو اپنے دربار میں رکھنے کے ذریعے آنحضرتؑ کے پیروکاروں اور علویوں سے عملی طریقہ سے یہ بات منوانا چاہتا تھا کہ امامؑ کا ہمارے ساتھ اتحاد ہے! امامؑ کی ہمارے ساتھ رشتہ داری ہے اور ہمارے داماد بھی ہیں اور نیز ہمارے ولی عہد، قریبی اور مشیر بھی ہیں۔ ہماری آپس میں جدائی نہیں ہے لہذا اگر کوئی شخص مامون کے خلاف کوئی کاروائی کرنا چاہے تو اس کی یہ کاروائی ایک طرح سے امام جواد (علیہ السلام) کے خلاف کاروائی بھی شمار ہوگی، لہذا اس نے اس طریقہ سے بھی اپنے اور اپنی حکومت کے لئے اعتماد حاصل کرنا چاہا۔
تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ مامون، عباسی خلفاء میں سب سے زیادہ مکار اور منافق تھا جو شیعہ کی افکار پر غلبہ پانے کے لئے بہت کوشان رہا اور شیعہ کے ائمہ معصومین (علیہم السلام) سے مناظرہ کی محفلیں منعقد کرنے سے اس کا اصلی مقصد ان حضراتؑ کو شکست دینا اور آخرکار مذہب تشیع کا خاتمہ کرنا تھا، کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ تشیع کا سورج ہمیشہ کے لئے غروب کرجائے اور غاصب و ظالم حکمرانوں کے راستے سے سب سے بڑی رکاوٹ ہٹ جائے، لیکن ایسے دور میں، ایسے نازک حالات میں اور ایسی کشیدگی کے عالم میں حضرت امام جواد (علیہ السلام) نے مضبوطی کے ساتھ اور اقتدار الٰہی کے ذریعے، ان گمراہیوں، لاپرواہیوں، توہینوں اور باطل خلفاء کی دیگر مکاریوں کا مقابلہ کیا اور دین اسلام اور شیعوں کا دفاع کیا۔
معصومؑ سے ظاہری تعلق جوڑ کر حددرجہ خیانت کا ارادہ
واضح ہے کہ عباسی حکومت کا مناظروں کی محفلیں اور علمی جلسے منعقد کرنے سے مقصد، ائمہ اطہار (علیہم السلام) کے علم اور حتی امامت کو داغدار کرنا ہوتا تھا، لیکن وہ اس کام کے ذریعہ نہ صرف اپنے مقصد تک نہیں پہنچ پاتے تھے، بلکہ ان کا یہ کام ان کی ذلت اور رسوائی کا باعث بن جاتا تھا۔
مامون اپنی بیٹی کی حضرت امام محمد تقی (علیہ السلام) سے شادی کرکے اس مقصد تک پہنچنا چاہتا تھا کہ شیعوں میں اثر و رسوخ حاصل کرلے تا کہ اس ذریعہ سے شیعوں کی ترقی اور کمال میں کمی کرسکے۔ وہ اسی سیاست کے ذریعہ، ظاہری طور پر امام کا احترام کیا کرتا تھا اور حتی اپنی بیٹی ام فضل کو امام جواد (علیہ السلام) کی مکمل فرمانبرداری کے لئے مجبور کیا کرتا تھا۔ ام فضل، امام جواد (علیہ السلام) کے بارے میں شکایت کرتی رہتی تھی کہ آنحضرتؑ نے ایک کنیز سے شادی کیوں کی ہے، لیکن کیونکہ مامون کی وہی اثر و رسوخ حاصل کرنے والی سیاست تھی تو اپنی بیٹی کی شکایتوں پر کوئی توجہ نہیں دیتا تھا۔ یہ سیاست مامون کی موت کے بعد بدل گئی، معتصم نے حضرت امام جواد (علیہ السلام) سے بیزار ہو کر آپؑ کو دوبارہ بغداد بلوایا اور امامؑ کو شیعوں سے الگ تھلگ کرنے کی سیاست کو اختیار کیا اور آنحضرتؑ کو ایک سال کے بعد شہید کردیا۔
نتیجہ:
معصومؑ کے بارے میں اللہ کی تدبیر اور دشمن کی شکست فاش
اللہ کے دشمن، اہل بیت (علیہم السلام) سے اتنی دشمنی کرنے کے باوجود نہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوسکے اور نہ ائمہ اطہار (علیہم السلام) کے اہداف کی روک تھام کرسکے، اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ اگرچہ دشمن، اہل بیت (علیہم السلام) کو شہید کرتے رہے اور شہادت کے باعث لوگ ان حضراتؑ سے ظاہری رابطہ کے لحاظ سے محروم ہوگئے مگر اللہ تعالی کی آخری حجت، بارہویں امام حضرت صاحب العصر و الزمان (عجّل اللہ تعالی فرجہ الشریف) پردہ غیبت میں موجود اور زندہ ہیں، یعنی دشمن اتنی کوششوں کے باوجود سلسلہ امامت کی روک تھام نہ کرسکا لیکن دیگر ائمہ اطہار (علیہم السلام) کی طرح آخری امامؑ بھی لوگوں کی ہدایت فرما رہے ہیں، وہ حضراتؑ ظاہر ہوکر اور حضرت بقیۃ اللہ الاعظم نظروں سے غائب ہو کر۔
اللہ نے اپنے خلیفہ کو اس طرح سے غائب کردیا کہ جو دین کے دشمن ائمہ اطہار (علیہم السلام) کو شہید کرتے آئے وہ بارہویں امام کو شہید کرنے کے لئے آنحضرتؑ کو تلاش کرتے کرتے عاجز رہ گئے، یہ ہے اللہ کی قدرت کی ایک جھلک کہ اگر چاہے تو اپنے دشمنوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کے ساتھ فرشتے جو غائب مخلوق ہے، ان کو ظاہر کرکے دشمن کو شکست فاش دیدے اور چاہے تو معصوم امامؑ کو بھی جو شمسِ کائنات ہے، نظروں سے غائب کرکے اپنے دشمن کو شکست دیدے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[1] تحليل زندگاني پيشوايان ما، صفحه 250۔
Add new comment