معافی
امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: «...إِنْ شَتَمَکَ رَجُلٌ عَنْ یَمینِکَ ثُمَّ تَحَوَّلَ إِلى یَسارِکَ وَ اعْتَذَرَ إِلَیْکَ فَاقْبَلْ عُذْرَهُ» ۔ (۱)
اگر کسی انسان نے دائیں طرف سے تمہیں گالیاں دیں اور بائیں سمت سے تم سے معافی مانگ لی تو اس کی معافی اور عذر خواہی کو قبول کرلو ۔
جب انسان توبہ کر لیتا ہے تو وہ ایسے پاک صاف ہو جاتا ہے جیسے اس نے پہلے وہ گناہ کبھی کیا ہی نہ ہو.
ذراذرا سی بات پر غصہ ہو نا اور کہنا کہ ہم اسے زندگی بھر معاف نہیں کریں گے، بات نہیں کریں گے عام سی بات ہو گئی ہے، جبکہ آل رسول(ع) کا ارشاد ہے کہ مخاطب نے تمہیں گالی ہی کیوں نہ دیا ہو اگر وہ معافی مانگے تو فوراً معاف کردو۔
إِذٰا اسْتَغْفَرْتَ اللهَ، فَاللهُ یَغْفِرُ لَكَ؛”اگر تم خدا سے استغفار کروگے تو خداوندعالم بھی تم کو معاف کردےگا“۔[مدینة المعاجز، ج 8، ص 85۔]شیخ کلینی علیہ الرحمہ اس حدیث شریف کو امام زمانہ علیہ السلام کی احادیث کے ضمن میں بیان کرتے ہیں۔
امام علی علیہ السلام:رحم کرو مستحق رحم قرار پاؤ۔[میزان الحکمہ ج۴ص۳۸۲]
معافی مانگنے کو ایک ایسی انسانی صفت مانا گیا ہے جسے اپنے اندر پیدا کرنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں،اسی لئے یہ صفت انسانی ہونے کے باوجود ماورائی سی لگتی ہے، انسان خطا کا پتلا ہے کون ہے جو یہ دعویٰ کرے کہ مجھ سے کبھی غلطی نہ ہوئی، بڑی بڑی برگزیدہ ہستیوں سے بھی غلطی کا ارتکاب ہوا تو پھر عام انسان کیسے محفوظ ره سکتے ہیں۔
خلاصہ: سب سے بڑا معاف کرنے والا شخص وہ ہے جو قدرت رکھتے ہوئے معاف کرے۔