ماہ رمضان کی دعاوں کی شرح، تیسرے دن کی دعا (۴)

Mon, 03/11/2024 - 12:18

گذشتہ سے پیوستہ

رسول خدا صلی اللہ علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں : «إِنَّ أَبْوَابَ الْجَنَانِ فِی هَذَا الشَّهْرِ مُفَتَّحَةٌ؛ اس ماہ میں بہشت کے دروازے کھلے ہیں» ، (۱) رسول خدا کے اس جملہ سے یہ بات واضح اور روشن ہے کہ بہشت اس وقت بھی موجود ہے جس کا دروازہ رمضان المبارک میں بندوں کے لئے کھول دیا جاتا ہے ، اور بہشت کے دروازے ، قران کریم کی تلاوت ، دعا و عبادت ، گناہوں سے دوری اور پرہیز ، ضرورت مندوں کی مدد اور دیگر تمام نیک کام جو اس ماہ میں انجام پائیں ، ان میں سے ہرایک بہشت کے دروازوں میں سے دروازہ ہے ۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : «نَوْمُ الصَّائِمِ عِبادَةٌ وَصَمْتُهُ تَسْبیحٌ وَعَمَلُهُ مُتَقَبَّلٌ وَدُعاؤُهُ مُسْتَجابٌ ؛ روزہ دار کا سونا عبادت ، اس کی خاموشی تسبیح ، اس کا عمل مقبول اور اس کی دعائیں مستجاب ہیں» ۔ (۲)

جی ہاں ! اس ماہ میں سونا بھی عبادت اور فضلیت ہے اور جب سو کر گزرنے والے لمحات عبادت ہوں تو پھر قران کی تلاوت ، نماز و دعا کی فضلیت کیا ہوگی ، خاموشی تسبیح کے برابر ہے تو پھر تسبیح کی کیا فضلیت ہوگی ۔

اس ماہ میں عمل مقبول ہے ، عمل کے مقبول ہونے اور اس کے صحیح ہونے میں فرق ہے ، ممکن ہے اپ اعمال انجام دیں مگر خدا کی بارگاہ میں قبول نہ ہوں ، عمل کے صحیح ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عمل کو اس کے تمام اجزاء اور شرائط کے ساتھ انجام دیا گیا ہے مگر مقبول ہونے کا مطلب یہ ہے اس عبادت میں روح موجود ہے ۔

دعا اس ماہ میں مستجاب ہے کیوں کہ روزہ دار نے خود کو خدا سے مخصوص کردیا ہے ، اس ماہ میں حضورِ قلب زیادہ ہے ، انسان جتنا زیادہ خدا کی جانب متوجہ ہوگا اس کے قریب ہوگا اتنا ہی زیادہ اس کی دعائیں قبول ہوں گی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ:

۱: ابن عقده کوفی، فضائل امیرالمومنین علیه السلام ، خطبہ شعبانیہ ، ص۱۳۳؛ صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، ۱۳۷۸ق، ج۱، ص۲۹۵ ۔

۲: شیخ صدوق ، من لايحضره الفقيہ، ج۲، ص۷۶۔  

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
3 + 1 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 21