اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اہل بیت اطھار علیہم السلام کی ذات انسان اور خداوند متعال کی درمیان واسطہ ہے ، یہ وہ عمل ہے جس کی قران کریم نے بھی تاکید کی ہے : «وَ ابْتَغُوا إِلَیْهِ الْوَسیلَةَ؛ اس سے وسیلہ کے ذریعہ تقرب حاصل کرو» ۔ (۱) لہذا اپنی آرزوں کی دستیابی اور دعاوں کی قبولیت کے لئے اہل بیت اطھار علیہم السلام کو جن کا خداوند متعال کے نزدیک عظیم مقام و مرتبہ ہے ، وسیلہ قرار دینا عقلی حوالے سے قابل قبول اور پسندیدہ عمل ہے ۔
جیسا کہ سعدی اپنے اشعار میں کہتے ہیں :
رهی نمی برم و چاره ای نمی دانم
به جز محبت مردان مستقیم احوال
مرا به صحبتِ نیکان، امید بسیار است
که مایه داران رحمت کنند بر بَطّال
بُوَد که صدرنشینانِ بارگاه قبول
نظر کنند به بیچارگان صف نعال
سعدی (۲)
ج: دعا سے پہلے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور اپ کی مقدس آل علیہم السلام کے اسمائے گرامی کا تذکرہ ، دنیا کی حَسِین و جَمِیل ، بے عیب و نقص ذاتوں سے جزبات اور محبت کا اظھار ہے ، وہ عظیم اور بزرگ شخصیتیں جو خلقت الہی کا عظیم شاہکار ہیں ۔ (۳)
خیز تا بر کِلکِ آن نقاش، جان افشان کنیم
کاین همه نقش عَجَب در گردشِ پرگار داشت
حافظ (۴)
باری چگونه می شود که در جهان
زیبایی باشد و ما فارغ از آن باشیم؟!
در جهان شاهدیّ و ما فارغ؟!
در قدح، جرعه ای و ما هشیار؟!
دیوان سنایی (۵)
د: ہر چیز سے پہلے اهل بیت علیہم السلام پر دورد و صلوات بھیجنے کے بے انتہا فوائد ہیں جیسا کہ زیارت جامعہ کبیرہ میں ذکر ہوا ہے : «وَ جَعَلَ صَلَواتِنا عَلَیْکُمْ وَ ما خَصَّنا بِهِ مِنْ وِلایَتِکُمْ طیبا لِخَلْقِنا وَ طَهارَةً لِاَنْفُسِنا وَ تَزْکِیَةً لَنا؛ خداوند متعال نے اپ کیلئے درود و صلوات قرار دیا اور اپ کی ولایت ہم سے مخصوص کی ہماری خلقت کی پاک و پاکیزگی ، ہمارے نفسوں کی طھارت اور ہمارے تذکیہ کے لئے» ۔ (۶)
ھ: نتیجتا ، محمد و ال محمد صلی اللہ علیہ وال وسلم پر صلوات دعاوں کی قبولیت اور استجابت کا باعث ہے ، جیسا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ اپ نے فرمایا: مَنْ کانَتْ لَهُ اِلَی اللّهِ عَزَّوجَلَّ حاجَةٌ فَلْیَبْدَأْ بِالصَّلاةِ عَلی مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ ثُمَّ یَسْأَلُ حاجَتَهُ، ثُمَّ یَخْتِمُ بِالصَّلاةِ عَلی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ. فَاِنَّ اللّهَ عَزَّوَجَلَّ اَکْرَمُ مِنْ اَنْ یَقْبَلَ الطَّرَفَیْنِ وَ یَدَعَ الْوَسَطَ اِذا کانَتِ الصَّلاةُ عَلی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ لا تُحْجَبُ عَنْهُ ۔ (۷)
خداوند متعال کی بارگاہ میں جس کی کوئی حاجت ہو وہ اپنی حاجتوں کی ابتدائی میں محمد و ال محمد صلی اللہ علیہ و الہ وسلم پر درود بھیجے پھر اپنی حاجتیں مانگے اور دعا کے اخر میں بھی محمد و ال محمد صلی اللہ علیہ والہ و سلم پر درود بھیجے کیوں کہ خداوند متعال سے اس بات کی امید نہیں کہ وہ دعا کے اول و اخر کو قبول کرلے مگر درمیان کو چھوڑ دے جب دعا محمد و ال محمد صلی اللہ علیہ و الہ وسلم درود کے ساتھ ہو ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: قران کریم ، سورہ مائده ، ایت ۳۵ ۔
۲: مواعظ سعدی ، قصیدہ شمارہ ۳۶ ۔
۳: الحویزی، الشیخ عبد علی بن جمعة العروسی، تفسیر نورالثقلین ، ص۱۵۶ ۔
۴: غزلیات حافظ ، غزل شمارهٔ ۷۷ ۔
۵: غزلیات سنائی، http://www.nosokhan.com/library/Topic/0E1Y
۶: قمی ، شیخ عباس ، مفاتیح الجنان ، زیارت جامعہ کبیرہ ۔
۷: السبزواری، الحاج ملاهادی، شرح جوشن کبیر ۔
Add new comment