مولانا امین شھیدی: ایران نے امریکا و اسرائیل کے زیر سرپرست گروہ کو نشانہ بنایا

Thu, 01/18/2024 - 08:17

امت واحدہ پاکستان کے سربراہ حجت الاسلام و المسلمین محمد امین شھیدی نے بی بی سی(BBC) گفتگو میں بیان کیا: میرا خیال ہے کہ بلوچستان میں جیش العدل کے ٹھکانوں پر حملے دونوں ممالک کی باہمی تفاہم اور انڈر اسٹینڈنگ سے ہی انجام پذیر ہوئے ہیں لیکن چونکہ ایک طرف رائے عامہ اور دوسری جانب انٹرنیشنل پریشر اور امریکی سامراج کے خطے میں مفادات کی وجہ سے پاکستان کو حالیہ موقف اختیار کرنا پڑ رہا ہے ، ورنہ ایک دوسرے کے تعاون کے بغیر ایسے آپریشنز بالعموم کامیاب نہیں ہوتے۔

انہوں نے کہا: پاکستان اور ایران دو ہمسایہ برادر ممالک ہیں اور ان کی طویل سرحدی حدود ہیں ،  اس خطہ میں دونوں کے مشترکہ مفادات ہیں، پاکستان داخلی طور پر جن مشکلات کا شکار ہے ان میں معیشت اور داخلی امن و امان سرفہرست مسائل ہیں، معیشت کی کمزوریوں کی وجہ سے پاکستان ایک ایسی صورتحال میں داخل ہوچکا ہے کہ کچھ عرب ممالک، یورپ اور امریکہ پر پاکستان کا انحصار بڑھتا چلا جا رہا ہے، اس انحصار کے باعث پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی میں بہت سی مشکلات پیدا ہوچکی ہیں، جس کا اثرات پاکستان اور ایران کے باہمی دوستانہ تعلقات پر بھی رونما ہو رہے ہیں۔

امت واحدہ پاکستان کے سربراہ نے مزید کہا: دوسری جانب پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں امن و امان نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی، گذشتہ دو سالوں میں پاکستان کی مسلح فورسز پر حملوں اور سرحد کے اس پار ایرانی علاقوں میں دہشت گردی میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے، دونوں جانب فوجی اور غیر فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، پاکستانی بلوچستان میں ایک بڑی تعداد میں فوجی جوان اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، جبکہ ایران کے اندر بھی گذشتہ دو ماہ میں ہونے والے خودکش حملوں میں سینکڑوں عسکری اور سویلین لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، ان دہشت گرد گروہوں میں سے بعض کی سرپرستی اسرائیل امریکہ اور بعض عرب ممالک کرتے رہے ہیں اور بعض کی سرپرستی ہندوستانی حکومت کرتی ہے۔

اپ نے بیان کیا: دہشت گرد گروپس اور ان کے یہ مراکز افغانستان اور دیگر ممالک کے تعاون سے آپریٹ ہو رہے ہیں اور سرحد کے دونوں جانب دہشت گردی اور خودکش دھماکوں کے ذریعے شدید نقصان پہنچاتے ہیں، شہید سردار قاسم سلیمانی کی شہادت کی سالگرہ پر کرمان کا خودکش حملہ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔

مولانا امین شھیدی نے بی بی سی (BBC) کے ایک اور سوال کے جواب میں کہا: ان دہشتگرد گروہوں کو روکنا پاکستان اور ایران کی مشترکہ ذمہ داری ہے، درحال حاضر پاکستان کے بلوچستان کو یہ مشکل درپیش ہے کہ سکیورٹی کے اداروں کی گرفت ہر حصہ پر قائم نہیں ہے، اسی باعث یہاں جیش العدل، داعش، بی ایل اے اور دیگر دہشتگرد گروہوں کو پنپنے کا موقع مل رہا ہے۔

انہوں نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ افغانستان کے امور میں ایرانی ذمہ دار جناب حسن کاظمی قمی کے حالیہ دورہ پاکستان کے موقع پر بھی مذاکرات کا ایک موضوع افغانستان میں دہشتگردی کے ٹھکانوں سمیت پاکستانی بلوچستان میں موجود دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا خاتمہ باہمی بات چیت کا موضوع رہا کہا: اسی بناء پر میں یہ سب سمجھتا ہوں کہ پاکستان اور ایران دونوں کو یہ معلوم تھا کہ ہم کیا کرنے جا رہے ہیں ، جیش العدل کے جن مراکز کو ایران نے نشانہ بنایا ہے، ان کی سرپرستی اسرائیل اور امریکہ کر رہے ہیں اور اس تنظیم کو موساد اور (CIA) کی براہ راست مدد حاصل ہے، اس تنظیم کے ممبران کی اکثریت ایرانی نیشنل ہے۔

اپ نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کھل کر اس موضوع پر اپنی سیاسی اور معاشی مسائل کی وجہ امریکہ اور اسرائیل کے خلاف لب کھولنے سے قاصر ہے جبکہ ایران اس وقت اسرائیل اور امریکی مفادات کے خلاف فلسطین، لبنان، شام، عراق، یمن اور کردستان میں مصروف عمل ہے ، لہذا میرا خیال یہی ہے کہ بلوچستان میں جیش العدل کے ٹھکانوں پر حملے دونوں ممالک کی باہمی تفاہم اور انڈر اسٹینڈنگ سے ہی انجام پذیر ہوئے ہیں لیکن چونکہ ایک طرف رائے عامہ اور دوسری جانب انٹرنیشنل پریشر اور امریکی سامراج کے خطے میں مفادات کی وجہ سے پاکستان کو حالیہ موقف اختیار کرنا پڑ رہا ہے ، ورنہ ایک دوسرے کے تعاون کے بغیر ایسے آپریشنز بالعموم کامیاب نہیں ہوتے۔

امت واحدہ پاکستان کے سربراہ نے اپنے بیان میں اضافہ کیا: ماضی قریب میں بھی تعاون کی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ پاکستان نے ایرانی اور ایران نے پاکستانی فورسز کے تعاون سے اپنے اپنے دشمن دہشتگرد گروپس کے خلاف آپریشنز کئے ہیں ، پاکستان کو بھی گذشتہ دو برسوں میں اس خطے میں ماضی کی نسبت بہت زیادہ دہشت گردی کا سامنا رہا ہے، ایران نے بھی ان دہشت گردوں کو نشانہ بنایا ہے، جو اصل میں ایرانی ہیں اور پاکستانی بلوچستان میں چھپ کر سرحد پار کارروائیاں کرتے ہیں ، لہذاٰ ایسے اقدامات جب دونوں ممالک کی ہم آہنگی سے ہوں تو خطے میں امن قائم قائم کرنے میں مدد ملتی ہے اور یہ بات دونوں ممالک کے طاقتور طبقات جانتے ہیں۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
15 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 86