گذشتہ سے پیوستہ
دوسری بات یہ ہے کہ فاطمیہ اعتقادی اعتبار سے ہمارے لئے بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ جس بات کی وجہ سے ہم شیعہ کہلاتے ہیں اور جو چیز ہماری پہچان ہے وہ امیرالمومنین یعسوب الدین حضرت علی علیہ السلام کی بلافصل خلافت اور امامت کا عقیدہ ہے اور آپ کے مقابل آنے والے نظام اور سیسٹم کے باطل ہونے کا عقیدہ ہے اور اسی بات کو ثابت کرنے کے لئے صدیقہ کبری خاتون محشر شافعہ محشر حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا جیسی عظیم الشان خاتون نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا اور اسی راہ میں آپ کی شہادت واقع ہوئی لہذا اس عقیدہ کی پاسداری اور اسے امت مسلمہ تک پہونچانا ہماری دینی ، شرعی اور عقلی ذمہ داری ہے کیونکہ اسی میں عالم اسلام کی بھلائی اور اخروی نجات ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ خود صدیقہ کبری حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے اتحاد کا عامل ہمیں پہچنوایا ہے ، آپ اپنے مشہور خطبہ فدکیہ میں اس جانب اشارہ فرماتے ہوئے ہمیں اتحاد کا نسخہ بتاتی ہیں ، آپ فرماتی ہیں : اللہ نے ہماری امامت کو تفرقہ ، اختلاف اور جدائی سے بچنے کے لئے امان قرار دیا ہے (۱) یعنی اگر سماج ہماری امامت پر متفق ہوجائے تو یہی سماج کے اتحاد کا ذریعہ ہے ، اختلافات کے دور ہونے کا باعث ہے کیونکہ جب دنیا کے سامنے صحیح عقیدہ ، صحیح عمل اور صحیح دین پیش ہوگا تو وہی بشریت کو نجات پہونچا سکتا ہے ، دنیا اور آخرت کی سعادت تک لے جاسکتا ہے۔
لہذا حضرت حمزہ کی قبر پر محمود بن لبيد نے جب آپ سے مسٔلہ امامت کے سلسلے سے سوال پوچھا تو آپ اس کے جواب میں فرماتی ہیں : تعجب ہے! کیا تم نے غدیر کا دن بھلا دیا ؟
آپ مزید فرماتی ہیں میں نے پیغمبر اسلام ص سے سنا ہے کہ آپ فرما رہے تھے : علی وہ بہترین شخص ہیں جنہیں میں تمہارے درمیان اپنا جانشین بنا رہا ہوں وہ میرے بعد امام اور خلیفہ ہیں اور میرے دونوں نواسے ( حسن ع و حسن ع ) اور حسین ع کی نسل سے نو فرزند ، آئمہ ابرار ہیں (یعنی پاک و پاکیزہ امام ہیں) اگر تم نے ان کی پیروی کی تو تم انہیں ہادی اور مہدی پاؤگے اور اگر تم نے ان کی مخالفت کی تو قیامت تک تمہارے درمیان اختلاف اور تفرقہ پایا جائے گا۔ (۲)
جاری ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱: ابن طیفور، بلاغات النساء ؛ حسن بن سلیمان حلی ، مختصر بصائر الدرجات ، ص ۴۵۶ ؛ سید مرتضی ، الشافی فی الامامہ ، ج ۴ ، ص ۷۱۔ جَعَلَ اللهُ الاِیمانَ تَطْهیراً لَکُمْ مِنَ الشِّرْکِ، وَ الصَّلاةَ تَنْزیهاً لَکُمْ عَنِ الْکِبْرِ، وَ الزَّکاةَ تَزْکِیَةً لِلنَّفْسِ، وَ نَماءً فِی الرِّزْقِ، وَ الصِّیامَ تَثْبِیتاً لِلاِخْلاصِ، وَ الْحَجَّ تَشْیِیداً لِلدِّینِ، وَ الْعَدْلَ تَنْسِیقاً لِلْقُلُوبِ، وَ طاعَتَنا نِظاماً لِلْمِلَّةِ، وَ اِمامَتَنا اَماناً مِنَ الْفُرْقَةِ [لِلْفُرْقَةِ]، وَ الْجِهادَ عِزاً لِلاِسْلامِ، وَ الصَّبْرَ مَعُونَةً عَلَى اسْتِیجابِ الاَجْرِ وَ الاَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ مَصْلَحَةً لِلْعامَّةِ وَ بِرَّ الْوالِدَیْنِ وِقایَةً مِنَ السُّخْطِ وَ صِلَةَ الاَرْحامِ مَنْماةً لِلْعَدَدِ وَ الْقِصاصَ حَقْناً لِلدِّماءِ وَ الْوَفاءَ بِالنَّذْرِ تَعْرِیضاً لِلْمَغْفِرَةِ وَ تَوْفِیَةَ الْمَکایِیلِ وَ الْمَوازِینِ تَغْیِیراً لِلْبَخْسِ وَ النَّهْیَ عَنْ شُرْبِ الْخَمْرِ تَنْزِیهاً عَنِ الرِّجْسِ وَ اجْتِنابَ الْقَذْفِ حِجاباً عَنِ اللَّعْنَةِ وَ تَرْکَ السَّرِقَةِ اِیجاباً لِلْعِفَّةِ وَ حَرَّمَ اللهُ الشِّرْکَ اِخْلاصاً لَهُ بِالرُّبُوبِیَّةِ۔
۲: ابن خزاز قمی ، کفایة الاثر ، ص ۱۹۹ ؛ علامہ مجلسی ، بحارالانوار ، ج ۳۶ ، ص ۳۵۳ ؛ شهید ثالث ، احقاق الحق ، ج ٢١ ، ص ٢٦ ، قالَتْ وَ اعَجَباهْ أَنَسیتُمْ یَوْمَ غَدِیرِ خُمٍّ؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ یَقُولُ: عَلِیٌّ خَیْرُ مَنْ أخَلِّفُهُ فِیکُمْ وَ هُوَ الْإمامُ وَ الْخَلِیفةُ بَعْدِی، وَ سِبْطایَ وَ تِسْعَهٌ مِنْ صُلْبِ الْحُسَیْنِ(ع) أَئِمَّةٌ أَبْرَارٌ، لَئِنِ اتَّبَعْتُمُوهُمْ وَ جَدْتُمُوهُمْ هادِینَ مَهْدِیِّینَ، وَ لَئِنْ خَالَفْتُمُوهُمْ لَیَکُونُ الإخْتِلَافُ فیکُمُ إلی یَوْمِ الْقِیَامَةِ؟ قُلْتُ: یَا سَیِّدَتی فَمَا بَالُهُ قَعَدَ عَنْ حَقِّهِ؟ قالَتْ: یَا بَا عُمَرَ لَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللهِ(ص): مَثَلُ الْإمَامِ مَثَلُ الْکَعْبَةِ اِذْ تُؤْتَی وَ لا تَأْتِی. أَما لَوْ تَرَکُوا الْحَقَّ عَلی أَهْلِهِ وَ اتَّبَعُوا عِتْرَةَ نَبِیِّهِ لَمَا اخْتَلَفَ فِی اللهِ إثنَانِ، وَ لَوَرِثَهَا سَلَفٌ عَنْ سَلَفٍ وَ خَلَفٌ بَعْدَ خَلَفٍ حَتَّی یَقٌومَ قَائِمُنَا التَّاسِعُ مِنْ وُلْدِ الْحُسَیْنِ وَ لَکِنْ قَدَّمُوا مَنْ أَخَّرَهُ الله وَ أَخَّرُوا مَنْ قَدَّمَهُ اللهُ: حَتَّی اِذَا أَلْحَدَ الْمَبْعُوثُ وَ أَوْدَعُوهُ الْجَدَثَ الْمَجْدُوثَ وَ إِخْتَارُوا بِشَهْوَتِهِمْ وَ عَمِلُوا بِآرَائِهِمْ تَبّاً لَهُمْ أَوَ لَمْ یَسْمَعُوا اللهَ یَقُولُ: «وَ رَبَّکَ یَخْلُقُ ما یَشاءُ وَ یَخْتارُ ما کانَ لَهُمُ الْخِیَرَةُ»؟ بَلْ سَمِعُوا وَ لکِنَّهُمْ کَمَا قَالَ اللهُ سُبْحَانَهُ: «فَاِنَّها لا تَعْمَی الْأَبْصارُ وَ لکِنْ تَعْمَی الْقُلُوبُ الَّتِی فِی الصُّدُور» هَیْهَاتَ بَسَطُوا فِی الدُّنْیَا آمَالَهُمْ وَ نَسُوا آجَالَهُمْ فَتَعْساً لَهُمْ أَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ أَعُوذُ بِکَ یَا رَبِّ مِنَ الْحَوْرِ بَعْدَ الْکَوْر.
Add new comment