شاید ضعیف الایمان یا سادہ لوح افراد کے ذھن میں جو یہ سوال ابھرے کے شیعہ اس قدر زہراء مرضیہ حضرت فاطمہ سلام اللہ کے یوم شھادت پر مجالس کیوں برپا کرنے لگے ہیں ؟ اس دردناک اور ہولناک منظر اور غم انگیز یادیوں کی تجدید کیا ضروری ہے ؟ اس کا فائدہ کیا ہے ؟ عین ممکن ہے یہ مجالس اور یادیں اسلامی معاشرہ میں اختلافات ابھرنے اور جنم لینے کا سبب بنیں !!
اس شبھہ اور سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر ماضی کے ان حوادث اور واقعات کا تعلق فقط تاریخی واقعات سے ہو تو شاید اس کی یادآوری اور یاد دہانی ضروری اور مناسب نہ ہو نیز بے سود اور بے فائدہ بھی ہو لیکن اگر ان واقعات اور حوادث کا تعلق دین و مذھب سے ہو اور مفید و مُثمِر ثَمر ہو تو پھر کیا ؟ آیا اس وقت بھی ان مجالس کا انعقاد غیر ضروری ہے ؟
اگر ایک گروہ ان واقعات اور حوادث کی بنیاد پر بعض باتوں کے معتقد ہوچکا ہو اور وہ بھی ایسے عقائد جو بنیادی کردار ادا کررہے ہوں ، دنیا و آخرت کی سعادتمندانہ زندگی میں اثر انداز ہوں ، اس وقت وظیفہ اور ذمہ داری کیا ہے ؟
قران کریم کا اس سلسلہ میں ارشاد ہے کہ «۔۔۔۔ جو حق کی ہدایت کرتا ہے وہ واقعا قابلِ اتباع ہے یا جو ہدایت کرنے کے قابل بھی نہیں ہے مگر یہ کہ خود اس کی ہدایت کی جائے تو آخر تمہیں کیا ہوگیا ہے اور تم کیسے فیصلے کررہے ہو»۔ (۱)
دوسری طرف رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی فرمائشات اور اپ کی وصیتیں اس بات پر واضح دلیل اور بیؔن ثبوت ہیں کہ اپ کے اہل بیت علیھم السلام کے حقوق کی رعایت اور اس کا پاس و لحاظ خاص اہمیت کا حامل ہے ، نتیجۃً ! اہل بیت اطھار علیہم السلام سے اظھار محبت ، اپ کے حقوق کی ادائیگی کے لئے لازم و ضروری ہے کیوں کہ ایک طرف رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نصیحتیں اور دوسری جانب مختلف اور متواتر روایات کا وجود ، محبت اہل بیت علیہم السلام کی اہمیت کو دوچندان کردیتا ہے ، یہ وہ باتیں اور نصیحتیں ہیں جو ہمیشہ محبؔان محمد و ال محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور اسلام کے سچؔے پیروں کاروں کے مورد توجہ رہی ہیں ، کیوں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے اہل بیت اطھار علیہم السلام کو متعدد مقامات پر اپنا بہترین جانشین بنا کر پیش کیا اور انہیں امت کی بافضلیت ترین فرد معرفی کیا جیسا کہ حدیث ثقلین میں ارشاد ہے «میں تمھارے درمیان دوگراں قدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ، کتاب خدا اور میری عترت اور اہل بیت [علیہم السلام] کہ جب تک ان دونوں سے متمسک رہوگے ھرگز گمراہ نہ ہوگے» ۔ (۲)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: ۔۔۔ أَفَمَنْ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَنْ يُتَّبَعَ أَمَّنْ لَا يَهِدِّي إِلَّا أَنْ يُهْدَىٰ فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ ؛ قران کریم ، سورہ یونس ، ایت۳۵ ۔
۲: إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ اَلثَّقَلَيْنِ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي كِتَابَ اَللَّهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي وَ إِنَّهُمَا لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ اَلْحَوْضَ ؛ دیلمی ، حسن بن ابی الحسن ، إرشاد القلوب، ج۱، ص۱۳۱ ۔
Add new comment