گذشتہ سے پیوستہ ۔۔
اسی بنا پر امام حسن عسکری علیہ السلام نے بھی اس فکر کا مقابلہ کیا ، ادریس بن زیاد کہتے ہیں میں اہلبیت طاہرین علیہم السلام کے بارے میں غلو کرتا تھا لہذا ایک دن میں نے سامراء کے محلہ عسکر کا رخ کیا تاکہ وہاں امام علیہ السلام سے ملاقات کرسکوں لہذا جب وہاں پہنچا تو کیونکہ بہت تھک گیا تھا لہذا پہلے حمام گیا تاکہ اپنی خستگی اتار سکوں وہاں میری آنکھ لگ گئی ، باہر دروازہ کھٹکھٹانے سے میری آنکھ کھلی ، دیکھا باہر امام علیہ السلام کھڑے ہیں ، امام علیہ السلام نے مجھ سے اس آیت کی تلاوت فرمائی : بَلْ عِبادٌ مُکرَمُونَ لا یسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَ همْ بأَمْرِهِ یعْمَلُون (۱) ، بلکہ وہ اس کے معزز بندے ہیں وہ کسی بات میں اس سے سبقت نہیں کرتے اور وہ اسی کے امر کی تعمیل کرتے ہیں۔ ادریس بن زیاد کہتے ہیں میں نے امام سے کہا اے میرے مولا اتنا ہی میرے لئے کافی میں سمجھ گیا اور اسی بات کو سمجھنے میں یہاں آیا تھا ۔(۲)
امام نے ایک آیت کی تلاوت کرکے اسے سمجھا دیا کہ آئمہ طاہرین علیہم السلام ، اللہ کے بندے ہیں اسی کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں اس کے امر سے سبقت نہیں لیتے۔
بدعتوں سے مقابلہ
بدعتوں سے مقابلہ اس قدر اہمیت رکھتا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں : جب میری امت میں بدعتیں ظاہر ہوں تو عالم کیلئے ضروری ہے کہ ( ان بدعتوں کا مقابلہ کرنے کیلئے ) اپنے علم کو ظاہر کرے اور جو ایسا نہ کرے تو اس پر خدا کی لعنت ہے۔ (۳) امام حسن عسکری علیہ السلام بھی اپنے والد بزرگوار اور اجداد طاہرین کی طرح ہمیشہ ان بدعتوں کے مقابل سینہ سپر رہے اگرچہ حکومت وقت کی جانب سے آپ پر شدید ترین پابندیاں عائد تھیں لیکن دینی اقدار کی حفاظت آپ کی ذمہ داری تھی ، اس راہ میں آپ نے اپنی تمام سعی و کوشش کی اور بدعتوں کا مقابلہ کیا جیسا کہ جبریہ ، مفوضہ ، واقفیہ وغیرہ کے خلاف آپ کے اقدامات اور مسلمانوں کی راہنمائی۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تحریک ایک الہی تحریک تھی جس کا مقصد تھا الہی قوانین اور آسمانی ثقافت کو معاشرہ میں رائج کیا جاسکے اور معاشرہ کو ہر طرح کی جاہلی فکر ، جاہلی تمدن اور جاہلی رسم و رواج سے پاک کیا جاسکے اور اس الہی نظام کی پاسداری کے لئے اللہ نے امامت کا سلسلہ قائم کیا لہذا امامت کی ذمہ داری اس الہی نظام ، اس آسمانی شریعت کی پاسداری ہے اسے ہر قسم کی بدعت اور انحراف سے محفوظ رکھنا ہے اور اس کے مقابل امت کی ذمہ داری ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی غیر موجودگی میں ہدایت کے چراغ اور کشتی نجات ، اہلبیت طاہرین علیہم السلام اور قرآن کریم سے تمسک کریں۔ صحابی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ، جناب سلمان فارسی فرماتے ہیں کہ نبی گرامی اسلام نے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا : اے لوگوں میں بہت جلد تمہارے درمیان سے رخصت ہوکر دوسرے عالم میں جانے والا ہوں ، میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ میری عترت کے ساتھ نیکی کے ساتھ پیش آنا اور بدعتوں سے پرہیز کرنا کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی اور اس کو انجام دینے والے دوزخ میں ہوں گے۔ (۴)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱: سورہ انبیاء آیت ۲۷ و ۲۸ ، بَلْ عِبَادٌ مُكْرَمُونَ لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ۔
۲: محمدبن علی ابن شهرآشوب ، مناقب آل ابیطالب ، ج ۴ ، ص ۴۲۸ ، إِدْرِيسُ بْنُ زِيَادٍ الْكَفَرْتُوثَائِيُّ قَالَ: كُنْتُ أَقُولُ فِيهِمْ قَوْلًا عَظِيماً فَخَرَجْتُ إِلَى الْعَسْكَرِ لِلِقَاءِ أَبِي مُحَمَّدٍ ع فَقَدِمْتُ وَ عَلَى أَثَرِ السَّفَرِ وَ وَعْثَائِهِ فَأَلْقَيْتُ نَفْسِي عَلَى دُكَّانِ حَمَّامٍ فَذَهَبَ بِيَ النَّوْمُ فَمَا انْتَبَهْتُ إِلَّا بِمِقْرَعَةِ أَبِي مُحَمَّدٍ قَدْ قَرَعَنِي بِهَا حَتَّى اسْتَيْقَظْتُ فَعَرَفْتُهُ فَقُمْتُ قَائِماً أُقَبِّلُ قَدَمَيْهِ وَ فَخِذَهُ وَ هُوَ رَاكِبٌ وَ الْغِلْمَانُ مِنْ حَوْلِهِ فَكَانَ أَوَّلَ مَا تَلَقَّانِي بِهِ أَنْ قَالَ يَا إِدْرِيسُ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ لا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَ هُمْ بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ فَقُلْتُ حَسْبِي يَا مَوْلَايَ وَ إِنَّمَا جِئْتُ أَسْأَلُكَ عَنْ هَذَا قَالَ فَتَرَكَنِي وَ مَضَى۔
۳: کلینی ، محمد بن یعقوب ، الکافی ، ج ۱ ص ۵۴ ، قَالَ رَسُولُ اَللَّهِ صَلَّى اَللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ : إِذَا ظَهَرَتِ اَلْبِدَعُ فِي أُمَّتِي فَلْيُظْهِرِ اَلْعَالِمُ عِلْمَهُ فَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اَللَّهِ۔
۴: محمد باقر مجلسی ، بحار الانوار، ج ۳۶ ، ص ۲۸۹۔ مَعاشِرَ النّاسِ ، إنّي راحِلٌ عَن قَريبٍ ، ومُنطَلِقٌ إلَى المَغيبِ ، اُوصيكُم في عِترَتي خَيرا ، وإيّاكُم وَالبِدَعَ ، فَإِنَّ كُلَّ بِدعَةٍ ضَلالَةٌ ، وَالضَّلالَةَ وأهلَها فِي النّارِ۔
Add new comment