قوموں کی ترقی ، کامیابی ، علمی ارتقاء اور تعمیر وتربیت میں استاد کا بہت بنیادی کردار ہوتا ہے لہذا ابتدائے آفرینش سے نظام تعلیم میں استاد کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور استادوں کو افراد کی تربیت سازی ، نئی نسل کی تعمیر و ترقی ، ان کے درمیان جذبہ انسانیت کی نشوونما اور معاشرہ کی فلاح و بہبود کی ذہنیت ایجاد کرنے کی وجہ سے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔
تدریس وہ پیشہ ہے جسے صرف اسلام جیسے عظیم مکتب ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر مذہب ، آئیڈیالوجی اور معاشرہ میں نمایاں مقام حاصل ہے لیکن یہ ایک غیرقابل انکار اور مسلمہ حقیقت ہے کہ جس طرح اسلام نے علم ، علماء اور استاد و شاگرد کی اہمیت ، قدر اور منزلت کو بیان کیا ہے اس طرح کسی بھی دین مذہب اور آئیڈیالوجی نے بیان نہیں کیا۔
اسلام نے استاد کو انتہائی درجہ عزت و احترام عطا کیا ہے پروردگار عالم قرآن میں سب سے پہلے خود کو بعنوان معلم متعارف کروا رہا ہے ارشاد ہوتا ہے : اس خدا کا نام لے کر پڑھو جس نے پیدا کیا ہے اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی ہے اور انسان کو وہ سب کچھ بتادیا ہے جو اسے نہیں معلوم تھا۔(۱)
اسی طرح قرآن میں نبی گرامی اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان بحیثیت معلم بیان ہورہی ہے ، اپنے نبی کی بعثت کا مقصد بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے : اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا ہے جو ان ہی میں سے تھا کہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے ,ان کے نفوس کو پاکیزہ بنائے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اگرچہ یہ لوگ بڑی کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا تھے (۲) خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے بارے میں فرمایا : میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔(۳)
اس کے علاوہ بے شمار احادیث میں استاد کی اہمیت اور قدر و منزلت کو بیان کیا گیا ہے جس کا اس مختصر سے مضمون میں احصاء نہیں کیا جا سکتا چند احادیث کی جانب صرف اشارہ کریں گے۔ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں : اپنے باپ اور اپنے معلم کے احترام میں اپنی جگہ سے کھڑے ہو اگرچہ تم امیر اور سردار ہی کیوں نہ ہو۔
اسی طرح امام زین العابدین علیہ السلام استاد کے حقوق بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :
جو شخص تمہیں علم سکھائے اس کا حق یہ ہے کہ اس کی تعظیم کرو اور اس کی مجلس کی عزت کرو اور اس کی باتوں کو غور سے سنو اور اس پر پوری توجہ دو اور اس کے سامنے اپنی آواز نہ اٹھاؤ اور اگر کوئی اس سے سوال کرے تو اس سے پہلے جواب مت دو اور اس کی مجلس میں کسی سے بات نہ کرو اور اس کے سامنے کسی کی غیبت نہ کرو اور اگر تمہارے سامنے کوئی اس کی برائی کرے تو اس کا دفاع کرو ، اس کے عیبوں کو چھپاؤ اور اس کے فضائل کا تذکرہ کرو۔۔۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱: سورہ علق آیت ۱ ۔ ۵ ، اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ، خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ، اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ، الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ، عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ۔ ترجمہ قرآن علامہ ذیشان حیدر جوادی مرحوم۔
۲: سورہ جمعہ آیت ۲ ، هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ، ترجمہ قرآن علامہ ذیشان حیدر جوادی مرحوم۔
۳: شرح اصول کافی ، ملا صدرا ،ج ۲ ، ص ۹۵۔ اِنَّما بُعِثتُ مُعَلِّماً۔
۴: آمدی ، غررالحكم ، ح ۲۳۴۱ ، قُمْ عَنْ مَجْلِسِکَ لأِبیکَ وَمُعَلِّمِکَ وَلَوْ کُنْتَ اَمیرا۔
۵: شیخ صدوق ، الخصال ، ج ۱ ، ص ۵۶۷ ، علامہ مجلسی ، بحار الأنوار ، ج ۲ ، ص ۴۲ ، حَقُّ سائسِكَ بِالعِلمِ : التَّعظيمُ لَهُ ، و التَّوقيرُ لِمَجلِسِهِ ، و حُسنُ الاستِماعِ إلَيهِ ، و الإقبالُ عَلَيهِ ، و أن لا تَرفَعَ عَلَيهِ صَوتَكَ ، و أن لا تُجيبَ أحَدا يَسألُهُ عَن شَيءٍ حَتّى يَكونَ هُوَ الّذي يُجيبُ ، و لا تُحَدِّثَ في مَجلسِهِ أحَدا ، و لا تَغتابَ عِندَهُ أحَدا ، و أن تَدفَعَ عَنهُ إذا ذُكِرَ عِندَكَ بِسُوءٍ ، و أن تَستُرَ عُيوبَهُ ، و تُظهِرَ مَناقِبَهُ۔۔۔
Add new comment