آسمان امامت و وصایت کے گیارہویں تابندہ آفتاب ۱۱ ذیقعدہ ۲۳۲ ہجری کو اپنے جد کے شہر مدینہ منورہ میں متولد ہوئے اور زمانہ کے انقلابات کے باعث جب آپ کے والد گرامی کو سامرہ لے جایا گیا تاکہ حکومت آپ پر نظر رکھ سکے اور آپ کی کارکردگی کو محدود اور شیعوں سے آپ کے رابطے کو منقطع کیا جاسکے تو آپ کا یہ بلند اقبال فرزند بھی آپ کے ہمراہ سامراء میں ساکن ہوا اور وہاں کی سرزمین کو یہ شرف حاصل ہوا کہ آپ کی نشوونما کا مرکز قرار پائے اور آپ کی تمام زندگی وہیں بسر ہوئی اور اسی سرزمین پر آپ کی شہادت واقع ہوئی اور آپ کی عظیم بارگاہ مرجع خلائق اور ملائکہ کے رفت و آمد کا مقام قرار پائی۔
آپ کی شہادت کے بعد تشیع ایک جدید موقعیت سے روبرو ہوئی کیونکہ الہی حجت اور وقت کا امام غیبت کے طولانی دور اور انتظار کے طاقت فرسا مرحلہ میں داخل ہوا لہذا شیعیت کیلئے آپ کے ارشادات اور آپ کی راہنمائی بہت اہمیت کی حامل ہے ہم یہاں پر آپ کی سیرت کے چند اہم گوشوں کی جانب آپ کے ارشادات کی روشنی میں اشارہ کرنے کی کوشش کریں گے۔
اللہ پر ایمان اور اپنے دینی بھائیوں کو فائدہ پہونچانا
آئمہ کی زندگی میں سب سے مرکزی حیثیت ، ذات خدا کو حاصل ہے اور ہر کام اللہ کیلئے انجام دینا اللہ کے راستے میں انجام دینا اللہ کی رضا کے مطابق انجام دینا یہی آئمہ علیہم السلام کی زندگی کا مقصد ہے اور اسی مقصد کی تکمیل کے لئے ان ذوات مقدسہ نے اپنی پوری زندگی بسر کی ہے اور ان برگزیدہ ہستیوں کا دوسرا اہم کام دوسری اہم سیرت لوگوں کو فائدہ پہونچانا ان کی فلاح اور بہبود اور سعادت دنیا و آخرت کے لئے دن رات کوشاں رہنا نیز اپنے شیعوں کو ایک اہم سفارش یہی ایمان باللہ اور نفع اخوان یعنی اللہ کی ذات پر ایمان اور اپنے دینی بھائیوں کو فائدہ پہونچانا ہے۔
امام حسن عسکری علیہ السلام ایک حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں : دو ایسی خصلتیں ہیں جن سے برتر کوئی چیز نہیں ہے ایک اللہ پر ایمان اور دوسرے اپنے مؤمن بھائیوں کو فائدہ پہونچانا(۱)۔
تعقل اور تفکر کی دعوت
امام حسن عسکری علیہ السلام کو جب پتہ چلا کہ اس زمانہ کا فیلسوف اسحاق کندی تناقضات قرآن پر ایک کتاب لکھ رہا ہے آپ نے اس کے شاگردوں سے فرمایا کہ تم میں کوئی مرد رشید نہیں ہے جو اسے اس کام سے منصرف کرے ، شاگردوں نے کہا کہ ہم اس کے شاگرد ہیں ہم کیسے اسے روک سکتے ہیں ، آپ نے فرمایا کہ کیا میرا پیغام اس تک پہونچا سکتے ہو ؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ امام نے فرمایا کہ جاؤ اور اس سے انس پیدا کرو اور جو کام انجام دے رہا ہے اس میں اس کی مدد کرو پھر اس سے کہو میرے ذہن میں ایک سوال آرہا ہے ، کیا دریافت کرسکتے ہیں؟ جب تمہیں سوال کی اجازت دے تو اس سے پوچھنا کہ اگر قرآن کا لکھنے والا تمہارے پاس آئے اور کہے میرا منظور وہ نہیں تھا جو تم سمجھ رہے ہو۔ وہ کہے گا ممکن ہے۔ جب وہ مثبت جواب دے تو اس سے کہنا کہ آیا یہ ممکن نہیں ہے کہ اس قرآن سے جو مطلب تم سمجھ کر یہ کتاب لکھ رہے ہو شاید خدا کا منظور وہ معنی نہ ہوں اور تم مراد متکلم کے برخلاف معنی سمجھ کر اس کے خلاف کتاب لکھ رہے ہو۔ وہ شاگرد گیا اور جیسا امام نے کہا تھا اس نے اسی طرح سوال کیا ، اسحق کندی نے کہا دوبارہ سوال کرو اور وہ فکر میں چلا گیا اور شاگرد سے پوچھا صحیح بتاؤ یہ سوال تمہارے ذہن میں کہاں سے آیا اس شاگرد نے کہا ابو محمد حسن عسکری نے یہ بتایا ہے ، یہ سن کر کندی بولا اب تم نے حق کہا ایسے سوال صرف اس خاندان سے ہی نکل سکتے ہیں اور یہ کہہ کر اس نے وہ مسودہ جو تناقضات قرآن پر لکھ رہا تھا اسے جلا دیا(۲)۔
امام نے انسانوں کو تفکر اور تعقل کی دعوت دی اور یہ سمجھایا کہ عقل و فکر کو استعمال کرکے بہت سے مسائل کو سمجھا جاسکتا ہے اور دشمنوں سے مقابلہ کا ایک راستہ یہ ہے کو انہیں عقل و فکر کی دعوت دی جائے اور ان کے شعور کو زندہ کیا جائے کیونکہ اگر وہ غور و فکر سے کام لیں گیں تو ان کے لئے حق تک پہونچنا آسان ہوگا۔
جاری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات :
۱: حسن بن شعبۃ الحرانی ، تحف العقول ، ص ۴۸۹۔ قالَ الإمامُ الْحَسَنِ الْعَسْکَری – علیه السلام – : خَصْلَتانِ لَیْسَ فَوْقَهُما شَیءٌ: الاْیمانُ بِاللهِ، وَنَفْعُ الاْخْوانِ.
۲: محمد باقر مجلسی ، بحارالانوار، ج ۵۰، ص ۳۱۱ و ج ۱۰، ص ۳۹۲. مناقب ابن شهرآشوب جلد ۴ ص ۴۲۴ ، أبو القاسِمِ الكوفيِّ في كِتابِ التَّبديلِ : إنَّ إسحاقَ الكِنديِّ كانَ فيلسوفَ العِراقِ في زَمانِهِ أَخَذَ في تَأليفِ تَناقُضِ القُرآنِ وَشَغَلَ نَفسَهُ بِذلك وَتَفَرَّدَ بِهِ في مَنزِلِهِ وَإنَّ بَعضَ تَلامِذَتِهِ دَخَلَ يَوما عَلى الإمامِ الحَسَنِ العَسكَريِّ فَقالَ لَهُ أبو مُحَمَّدٍ عليه السلام : أما فيكُم رَجُلٌ رَشيدٌ يَردِعُ أستاذَكُم الكِنديِّ عَمّا أخَذَ فيهِ مِن تَشاغُلِهِ بِالقُرآنِ ؟ فَقالَ التِّلميذُ : نَحنُ مِن تَلامِذَتِهِ كَيفَ يَجوزُ مِنّا الإعتِراضُ عَليهِ في هذا أو في غَيرِهِ ، فَقالَ لَهُ أبو مُحَمَّدٍ : أتُؤَدّي إليه ما ألقيهِ إليكَ ؟ قالَ : نَعَم قالَ : فَصِر إلَيهِ وَتَلَطَّف في مُؤانَسَتِهِ وَمَعونَتِهِ عَلى ما هُوَ بِسَبيلِهِ فَإذا وَقَعَتِ الأُنسَهُ في ذلك فَقُل قَد حَضَرَتني مَسألَةٌ أسألُكَ عَنها فَإنَّهُ يَستَدعي ذلك مِنكَ فَقُل لَهُ إن أتاكَ هذا المُتَكَلِّمُ بِهذا القُرآنِ هَل يَجوزُ أن يَكونَ مُرادُهُ بِما تَكَلَّمَ مِنهُ غَيرَ المَعاني الَّتي قَد ظَنَنتَها أنَّكَ ذَهَبتَ إليها ؟ فَإنَّهُ سَيَقولُ لَكَ إنَّهُ مِنَ الجائِزِ لأنَّهُ رَجُلٌ يَفهَمُ إذا سَمِعَ ، فَإذا أوجَبَ ذلك فَقُل لَهُ : فَما يُدريكَ لَعَلَّهُ قَد أرادَ غَيرَ الَّذي ذَهَبتَ أنتَ إلَيهِ فَتكونَ واضِعا لِغَيرِ مَعانيهِ . فَصارَ الرَّجلُ إلى الكِنديِّ وَتَلَطَّفَ إلى أن ألقى عَلَيهِ هذِهِ المَسألَةَ فَقالَ لَهُ : أعِد عَلَيَّ ، فَأعادَ عَلَيهِ فَتَفَكَّرَ في نَفسِهِ وَرأى ذلك مُحتَمَلاً في اللُّغَةِ وَسائِغا في النَّظَرِ فَقالَ : أقْسَمْتُ عَليكَ إلاّ أخبَرتَني مِن أينَ لَكَ ؟ فَقالَ : إنَّهُ شَيءٌ عَرَضَ بِقَلبي فَأورَدتُهُ عَلَيكَ ، فَقالَ : كَلاّ ما مِثلُكَ مَن اهتَدى إلى هذا وَلا مَن بَلَغَ هذِهِ المَنزَلَةَ فَعَرِّفني مِن أينَ لَكَ هذا ؟ فَقالَ : أمَرَني بِهِ أبو مُحَمَّدٍ فَقالَ : الآنَ جِئتَ بِهِ وَما كانَ لِيَخرُجَ مِثلَ هذا إلاّ مِن ذلك البَيتِ ؛ ثُمَّ إنَّهُ دَعا بِالنّارِ وَأحرَقَ جَميعَ ما كانَ ألَّفَهُ
جاری ہے۔۔۔۔
Add new comment