جناب زہرقین ، امام علیہ السلام سے دور دور رہ رہے ہیں کہ کہیں امام علیہ السلام سے سامنا نہ ہوجائے اور جب امام ، زہیر کو بلاتے ہیں اور وہ کچھ تأمل کرتے ہیں تو ان کی زوجہ دلھم بنت عمرو انہیں غیرت دلاتی ہیں اور وہ امام کی ملاقات کو جاتے ہیں اور اس ملاقات نے زہیر کی قسمت بدل دی اور آپ تاریخ کربلا میں ایک عظیم کردار ادا کرتے ہیں لیکن اس کردار کے پیچھے ایک خاتون کا کردار ہے ۔ (۱)
اسی طرح جناب حبیب ابن مظاہر کے پاس جب امام حسین علیہ السلام کا نامہ بر آتا ہے اور آپ اپنی زوجہ کا امتحان لینے کیلئے کہتے ہیں میرے بعد تمہارا کیا ہوگا تو آپ ایک تاریخی جملہ کہتی ہیں کہ اے حبیب لو تم میری چادر اوڑھ کر بیٹھو میں فرزند رسول کی نصرت کو جاؤں گی ۔ (۲)
جناب وہب کلبی کی ماں اور زوجہ کا کردار جبکہ ابھی جناب زہیر تازہ داماد ہیں اور عیسائی ہیں لیکن آپ کی ماں وہ کردار نبھاتی ہیں کہ جب مسلمان فرزند کو شہید کر رہے ہیں اس وقت ایک عیسائی اور اس کی ماں و زوجہ اسلام لاکر فرزند رسول کی مدد کا وظیفہ انجام دیتی ہیں ۔
خاندان اہلبیت علیہم السلام سے تعلق رکھنے والی خواتین نے تو حماسہ برپا کردیا ، جناب زینب شریکۃ الحسین بن کر ابھریں کبھی اپنے بچھوں کو شہادت جذبہ دلا رہی ہیں تو کبھی بھائی کا سایہ بن کر ہر شہید کے جنازہ پر جا رہی ہیں کبھی عصر عاشور جناب سید سجاد کو کاندھوں پر لاد کر جلتے خیموں سے باہر لاتی ہیں کبھی شام غریباں عباس و علی اکبر بن کر جلتی قناتوں پر رات گذارنے والی خواتین اور بچوں کی حفاظت کرتی ہیں کبھی کوفہ اور شام کے بازاروں میں جناب زینب کے خطبے ، حسینی پیغام کو دنیا کے گوشہ و کنار تک پہونچاتے ہیں ۔
جناب رباب کا اپنے ششماہہ کی تیر سہ شعبہ سے شہادت پر صبر اور اپنی کمسن بچی سکینہ کے شام کے زندان میں شہید ہوجانا کے بعد جبکہ اس بچی پر اس کمسنی میں غم و مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا صبر کرنا اور خود جناب سکینہ کا چار سال کی عمر میں عظیم کردار ۔
اسی طرح دوسری خواتین جیسے جناب ام فروہ کا حضرت قاسم کو جذبہ جہاد سے اس طرح سرشار کردینا کہ جب امام حسین علیہ السلام آپ سے پوچھتے ہیں بیٹا قاسم تم موت کو کیسا پاتے ہو؟ جناب قاسم جواب دیتے ہیں یا عم احلی من العسل اے چچا موت میرے نزدیک شہد سے زیادہ شیرین ہے یہ جذبہ ایک بیوہ ماں کی تربیت کا اثر ہے۔
اور دوسری باعظمت خواتین جن کا تذکرہ تاریخ بشریت کے ماتھے پر ایک نور کی طرح روشن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱: عاملی ، سید محسن امین ، امام حسن و امام حسین، ص ۱۸۴۔
۲: حائری مازندرانی، معالی السبطین، ج۱ ص۳۷۰۔
Add new comment