تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اصحاب و انصار امام حسین علیہ السلام نے۱۰ محرم یعنی روز عاشور سے پہلے اپ قربان ہونے ، خون دینے اور جان نچھاور کرنے کا وعدہ تو کیا تھا لیکن عمل میں دیکھانے کا وقت نہیں آیا تھا ، یقینا انہوں روز عاشور سے پہلے بھوک و پیاس کی سختیاں برداشت کی تھیں مگر جان کی بازی لگانا سب کے بس کی بات نہیں ہے ، یہ وہ وعدہ تھا جسے عاشور کے دن محقق ہونا تھا ۔
جس وقت عاشور کے دن حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے مختصر سے لشکر کے ساتھ یزید کے عظیم لشکر کے سامنے کھڑے ہوئے تو اپ کے اصحاب جب تک جان میں جان رہی دشمن کی فوج سے لڑتے رہے اور ہرگز اس بات کا موقع نہ دیا کہ امام حسین علیہ السلام کو کسی قسم کا گزند پہنچے ۔ (۱)
ہم اس مقام پر اصحاب امام حسین علیہ السلام کے ایثار و فداکاری ، اپ پر قربانی اور دشمن سے جنگ کے کچھ نمونہ پیش کررہے ہیں ۔
۱: ابوثُمامہ صائدی جنگ کے دوران امام حسین علیہ السلام کو خطاب کرکے عرض کرتے ہیں : میری جان اپ پر قربان ، دیکھ رہا ہوں کہ دشمن اپ کے قریب آگیا ہے مگر خدا کی قسم اپ ھرگز قتل نہیں کئے جاسکتے مگر یہ کہ ہم اپ سے پہلے قتل کردیئے جائیں ، لیکن میرا دل چاہ رہا ہے کہ خدا سے ملاقات کے وقت اپ کی اقتداء میں نماز ادا کرلوں جس کا وقت ہوچکا ہے تو امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : تم نے نماز کو یاد خداوند متعال تمہیں نماز پڑھنے والوں میں شمار کرے ۔ (۲)
۲: سعید بن عبد الله حنفی ، عاشور کے دن نماز ظھر کے وقت امام حسین علیہ السلام کے سامنے کھڑے ہوئے تاکہ امام حسین علیہ السلام نماز ظھر ادا کرسکیں اور دشمن کا کوئی تیر حضرت علیہ السلام کو نہ لگنے پائے ، اپ نے دشمن کے تیروں کے مقابل اس قدر استقامت کی نماز تمام ہونے کے ساتھ ساتھ ، شدت زخم سے زمین پر گر پڑے ۔ (۳) اپ کے زخم کی مقدار کے سلسلہ میں مورخین نے تحریر کیا ہے کہ نیزہ و شمشیر کے زخم کے علاوہ لاتعداد تیر اپ کے بدن میں پیوست تھے ، (۴) یہ استقامت اپ کی فداکاری و ایثار کے عمق و گہرائی کو بیان کرتی ہے ۔
۳: مسلم بن عوسجہ لڑتے لڑتے زمین کربلا پر گرپڑے اس کے باوجود امام حسین علیہ السلام کی مدد کے سلسلہ میں سوچ رہے تھے اور دوسروں کو اپ کی مدد کی تاکید کررہے تھے ، اپ نے اپنی آخری سانسیں لیتے لیتے حبیب بن مظاهر کو اپنی نحیف آواز میں امام حسین علیہ السلام کی جانب اشارہ کرکے کہا : میں تمہیں آخری لمحہ تک حسین علیہ السلام کی حمایت کی سفارش کرتا ہوں کہ انہیں یک و تنہا نہ چھوڑنا یہاں تک ان کے ساتھ قتل کردئے جاؤ ۔ (۵)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ :
۱: بَلاذُری، احمد بن یحیی ، ج ۳ ، ص ۴۰۴؛ و طبری، محمد بن جریر، ج ۵ ، ص ۴۴۲؛ و ابن نمای حلی، محمد بن جعفر، مثیر الاحزان و منیر سبل الاشجان، ص۶۷؛ و سید ابن طاووس، لہوف ، ص ۱۵۲ ۔
۲: طبری، محمد بن جریر، ج ۵ ، ص۴۳۹؛ و خوارزمی، موفق بن احمد، مقتل خوارزمی ، ج ۲ ،ص۲۰۔
۳: بَلاذُری، احمد بن یحیی ، ج ۳ ، ص ۴۰۳؛ طبری، محمد بن جریر،ج ۵ ، ص۴۴۱ ؛ و خوارزمی، موفق بن احمد، مقتل خوارزمی ، ج ۲ ، ص ۲۱؛ و سید ابن طاووس، لہوف ، ص۱۵۰ ۔
۴: خوارزمی، موفق بن احمد، ج۲ ، ص۲۱؛ و سید ابن طاووس، لہوف ، ص۱۵۰ ۔
۵: طبری، محمد بن جریر،ج ۵ ، ص ۴۳۶؛ و خوارزمی، موفق بن احمد، مقتل خوارزمی ، ج۲ ، ص ۱۹ ۔
Add new comment