شِعب ابو طالب(ع) مدبرانہ استقامت کی نشانی

Sat, 07/15/2023 - 09:15

مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے خدا کے حکم سے تین سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ تک پوشیدہ طور سے اسلام کی دعوت دی ، رسول خدا (ص) نے اس مختصر سی مدت میں ۴۰ افراد کو مسلمان بنایا اور پھر حکم خدا ایا کہ: « فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ وَ أَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكينَ ، إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ؛ پس آپ اس بات کا واضح اعلان کردیں جس کا حکم دیا گیا ہے اور مشرکین سے کنارہ کش ہوجائیں ، ہم ان استہزائ کرنے والوں کے لئے کافی ہیں» ۔ (۱)

رسول خدا (ص) کے اعلان عام سے قریش اور کفار مکہ وحشت زدہ ہوگئے ، ان کے بدن پر تھرتھری طاری ہوگئی ، انہوں نے سب سے پہلے رسول خدا (ص) کو لالچ دینے کی کوشش کی اور حضرت ابوطالب علیہ السلام سے کہا کہ اگر تمھارا بھتیجا حکومت چاہتا ہے تو ہم اپنی پوری حکومت اسے دے دیں گے ، اگر دولت چاہتا ہے تو اسے مال و دولت سے بھر دیں گے کہ ہم میں سب سے زیادہ دولت مند ہوجائے اور اگر اسے سرزمین عرب کی شہنشاہیت چاہئے تو اسے بادشاہ کے طور پر انتخاب کرلیں گے مگر اس سے کہئے کہ اس طرح کی باتیں نہ کرے ، حضرت ابوطالب (ع) نے کفار مکہ کا پیغام انحضرت (ص) تک پہنچا دیا مگر رسول خدا (ص) نے فرمایا : « یا عَمِّ، وَاللّهِ لَو وَضَعُوا الشَّمسَ فی یمینی وَالقَمَرَ فی یساری عَلی أن أترُک هذَا الأَمرَ حَتّی یظهِرَهُ اللّهُ أو أهلِک فیهِ، ما تَرَکتُهُ ؛ اے چچا ! خدا کی قسم اگر میرے داہنے ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں تاکہ میں اسلام کی تبلیغ سے دست بردار ہوجاوں تو جان لیں کہ ایسا نہ کروں گا یہاں تک خدا اس دین کو پیروز و کامیاب کرے گا یا میں اس راہ میں شھید ہوجاوں گا»(۲)  

جس وقت کفار مکہ کا رسول خدا (ص) پر دھمکی اور لالچ کا حربہ کارگر نہ ہوا اور انہیں حضرت ابوطالب علیہ السلام کی حمایت اور اپ کے ایمان کا علم ہوا تو انہوں نے مختلف قسم کی اقتصادی ، سماجی ، عدالتی پابندیاں لگانے اور اپ پر نفسیاتی و جسمانی اذیتیں پہنچانے کی ٹھان لی ۔

شعب ابو طالب(ع) کی زندگی ، دشمنوں کی پابندیوں کے مقابل رسول خدا (ص) اور حضرت ابوطالب (ع) کی حکمت عملی تھی ، حضرت ابوطالب (ع) کی کارکردگی نے مسلمانوں کو دشمنوں ، کفار و مشرکین کی ظالمانہ پابندیوں کے مقابل استقامت کا درس عطا کیا ۔

رسول اکرم (ص) نے مسلمانوں اور بنی ہاشم کو کفریہ معاشرہ کی سختیوں ، تکلیفوں اور اذیتوں سے نجات دینے کی سعی و کوشش کی ، اسلامی عقائد پر مبنی ایک نیا ایمانی معاشرہ جو محبت ، ہمدلی ، ایک دوسرے کی مدد اور امداد پر مبنی ہو، بنیاد رکھی تاکہ مسلمانوں کی عزت و کرامت محفوظ رہ سکے ۔

آخر میں مسلمانوں کی استقامت نتیجہ بخش ہوئی اور خدا کی مدد ان کے شامل حال ہوئی ، حضرت ابوطالب(ع) نے پابندیوں کے عہد نامہ کو نابود ہونے کی غیبی خبر سے لوگوں کو اگاہ کیا اور انہیں اسلام ، وحی خدا و رسول خدا (ص) کی رسالت پر ایمان و عقیدہ لانے کی بشارت دی ، مکہ اور قریش کے بعض بزرگان شعب ابوطالب (ع) میں آئے اور اپ کو عزت و احترام کے ساتھ شہر مکہ واپس آنے کی دعوت دی ۔ (۳)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ:  

۱: قران کریم ، سورہ حجر ، ایت ۹۴ ۔

۲: قمی ، علی بن ابراهیم ، تفسیر القمی ، ج ۲ ، ص ۲۲۸ ۔

۳: درودگر ، یوسف ، خلاصۂ تاریخ انبیاء، ص ۱۳۸ و ۱۳۹ ۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
17 + 2 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 55