شاعر مشرق علامہ اقبال اور محمد علی جناح کے پاکستان میں ہمیشہ انقلابی اور استعمار مخالف تحریکوں کو سراہا گیا کیوں کہ دونوں سے ایک عالمی استعمار مخالف تحریک یعنی برٹیش انڈیا کے خلاف کھولے جانے والے محاظ کا عظیم حصہ تھے اور برصغیر کو ان کے ہاتھوں سے نجات دلانے میں اہم کردار رکھتے تھے ۔
اسی بنیاد پر جب اسلامی جمھوریہ ایران میں بھی شہنشاہیت کے خلاف تحریک کا اغاز ہوا تو پاکستان میں درباری ملاوں کے برخلاف انقلابی افکار کے حامی افراد نے اپ سے اپنی حمایت کا اعلان فرمایا اور یہ حمایت اس وقت زیادہ شدت اختیار کرگئی جب 1963 عیسوی میں ایران میں دس ہزار سے زیادہ افراد کو شاہ ایران نے موت کے گھاٹ اتار دیا تو اس وقت دنیا نے امام خمینی (ر) کا نام سنا. پاکستان میں اس پر برعکس ردعمل ہوا. یہاں کی کچھ درباری تشیع نے شاہ ایران کے حق میں اور انقلابی علماء ایران کے خلاف پریس ریلیز، بیانات اور پریس کانفرس کیں کہ واحد شیعہ ملک میں شرپسند مولوی فساد پھیلا کر اسے کمزور کر رہے ہیں.
اس کے برعکس مولانا مودودی مرحوم نے اپنے پرچے "ترجمان القران" میں آرٹیکل شایع کیا جس میں شاہ ایران کے فعل کی شدید مذمت کی اور اس انقلابی جدوجہد کی حمایت کا اعلان کیا. اس پر ایرانی سفارت خانہ نے شدید رد عمل دیا اور ایک وضاحتی مضمون بھی دیا جو اسی پرچے میں شائع ہوا. غالباً شاہ ایران کے احتجاج پر حکومت پاکستان نے کارووائی کرتے ہوئے وہ پرچہ ضبط کرلیا، ڈیکلریشن ختم کردیا، جماعت اسلامی کالعدم قرار دے دی گئی اور مولانا مودودی سمیت پوری لیڈر شپ کو جیل میں ڈال دیا. دیگر الزامات کے علاوہ یہ الزام بھی چارج شیٹ میں شامل تھا کہ انہوں نے دوست ہمسایہ ملک سے تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی. یہ چھ ماہ سے زائد جیل میں رہے.
1979 میں پہلا وفد جماعت اسلامی کی طرف سے امام خمینی (رہ) کو ملنے فرانس گیا اور امام خمینی (رہ) کو پاکستان انے کی دعوت دی اس وقت پاکستانی شیعوں کی طرف سے محسن ملت قبلہ صفدر حسین نجفی، سیٹھ نوازش علی کے ساتھ فرانس میں امام خمینی (رہ) کی خدمت میں حاضر ہوئے امام خمینی (رہ) نے قبلہ صفدر حسین نجفی کو اپنا پہلا نمائندہ برائے پاکستان معین فرمایا اور امام راحل کی "توضیح المسائل" کا اردو ترجمہ کی ذمہ داری بھی دی۔
Add new comment