اسلام کی رُو سے لڑکے15 سال کی عمر میں اور لڑکیاں 9 سال کی عمر میں بالغ ہوجاتی ہیں اور اسلام نے ہر بالغ اور عاقل پر روزہ واجب کیا ہے لیکن اگر والدین مردد ہوں کہ بچے میں روزہ رکھنے کی توانائی ہے یا نہیں اس حالت میں اگر ماں باپ کو اطمئنان حاصل ہوجائے بچے روزہ رکھنے کی توانائی نہیں رکھتے تو انہیں روزہ رکھنے سے روک سکتے ہیں ، لیکن اگر ماں باپ مطمئن ہوں کہ روزہ ان کے بچے کے لئے نقصان دہ نہیں ہے بلکہ وہ فقط محبت و شفقت کی بنیاد پر روزہ رکھنے سے منع کررہے ہیں تو گناہ ماں باپ کی گردن پر ہے اور کفارہ بچہ کی گردن پر ۔
روزے کے لئے طاقت و توانائی شرط ہے لہذا جو بچے روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں وہ روزہ رکھیں اور اگر طاقت نہیں ہے تو روزہ نہ رکھیں ، ماں باپ بھی بچے کے حق میں بے جا محبت و شفقت سے کام نہ لیں اگر بچہ حقیقتا روزہ رکھ سکتا ہے تو روزہ رکھے اور اسے روزہ رکھنے سے نہ روکا جائے ۔
اور جو بچے روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے وہ اپنی عدم توانائی کو پورے مہینے روزہ نہ رکھنے کا بہانہ نہ بنائیں اگر ہوسکے تو ایک دن بیچ کرکے روزہ رکھیں اور بعد میں چھوٹے ہوئے روزہ کی قضا کریں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
فقہی مسائل کے ماھر حجت الاسلام و المسلمین حسین وحید پور
Add new comment