رسول خدا صلّی الله علیہ وآله وسلّم نے ایک روایت میں فرمایا : تُفتَّحُ أبوابُ السَّماءِ نصفَ اللَّيلِ فينادي منادٍ هل من داعٍ فيُستجابَ له هل من سائلٍ فيُعطَى هل من مكروبٍ فيفرَّجَ عنه ؟ فلا يبقَى مسلمٌ يدعو بدعوةٍ إلَّا استجاب اللهُ عزَّ وجلَّ له إلَّا زانيةً ۔
نیمہ شب (ادھی رات) میں اسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور منادی ندا دیتا ہے کہ کیا کوئی دعا کرنے والا ہے کہ اس کی دعا مستجاب کروں ؟ کیا کوئی درخواست کرنے والا ہے کہ اسے عطا کروں ؟ کیا کوئی درد و غم و اندوہ و مشکل و بلا کا شکار ہے ؟ کوئی مسلمان ایسا نہ ہوگا جسے اس عمل کی دعوت دی جائے مگر یہ کہ خداوند متعال اس کی دعا کو قبول کرے سوائے زانیہ (بدکردار) عورت کے ، لہذا مختصر وقت ہی کے لئے سہی بیدار ہوں اور خدا کی بارگاہ میں عرض ادب کریں ۔
عرفاء ، مراجع اور بزرگان دین کا کہنا کہ کوئی بھی کسی مقام اور منصب تک نہیں پہنچا مگر یہ کہ اس نے راتوں کو عبادت میں گزارا ہو ۔
راتوں میں عبادت کے کچھ امتیازات ہیں :
ایک: انسان کا بدن کچھ دیر ارام کرلینے کی وجہ سے عبادت کے لئے امادہ ہوچکا ہے جبکہ دن میں عبادت انجام دینے والے لوگ عین ممکن ہے تھکن کی وجہ سے عبادت کا پورا حق ادا نہ کرپائیں ۔
دو: راتوں کو عبادت کرنے والا ہر قسم کی ریا کاری اور دکھاوے سے دور ہے جبکہ دن میں عبادت کرنے والا اور دعائیں پڑھنے والا ممکن ہے شیطانی وسوسے کا شکار ہوجائے کہ جیسا کہ روایت میں موجود ہے کہ عمل میں ریا تاریک راتوں میں سخت پتھر پر کالی چینٹیوں کی چال سے کہیں زیادہ پوشیدہ اور نامحسوس ہے مگر شبوں میں نماز پڑھنے والے کے یہاں اس بات کا امکان بہت کم موجود ہے کہ وہ ریا کا شکار ہو ۔
تین: انسان شب میں اپنے خدا سے خلوت کرنے میں شرم کا احساس نہیں کرتا اور خدا سے دل کی باتیں کرتا ہے ، اپنی گناہوں کی توبہ کرتا ہے ، شب کوئی بھی موجود نہیں کہ جس سے شرم کرے ۔
چار: انسان دن میں کام کاج اور مسائل و مشکلات سے روبرو ہوکر دوڑتا رہتا ہے اور اپنے کام کو پورا کرنے میں مصروف رہتا ہے مگر شب میں ایسا نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
طبرانی ، سلیمان بن احمد ، المعجم الکبیر، ج ۹، ص ۵۹، ح ۸۳۹۱ ۔
Add new comment