حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ مذکورہ بیان میں اطاعت اور بندگی کو انسانوں کی خلقت کے مقاصد میں شمار فرماتی ہیں ، خلقت کے سلسلہ میں اپ کی یہ نظر ، زندگی اور حیات کے مختلف گوشے پر اثر انداز ہے ۔
مفسرین تحریر فرماتے ہیں کہ جس وقت یہ ایت کریمہ «لَا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَیْنَکُمْ کَدُعَاءِ بَعْضِکُمْ بَعْضًا ؛ تم رسول کو اس طرح خطاب نہ کرو جس طرح اپس میں ایک دوسرے کو خطاب کرتے ہو» حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے بھی دیگر مسلمانوں کے مانند اپکو بابا کہنے کے بجائے رسول خدا (ص) کہکر بلایا تو رسول خدا (ص) نے منھ موڑ لیا اور فرمایا : اے فاطمہ یہ ایت کریمہ تمھارے لئے ، تمھارے گھرانے کے لئے اور تمھاری نسل کے لئے نازل نہیں ہوئی ہے ، میں تم سے ہوں اور تم مجھ سے ہو ، یقینا یہ ایت کریمہ ظالموں ، ستمکاروں ، خود پسند اور مغروروں کو ادب سیکھانے کے لئے نازل ہوئی ہے ، تم مجھے بابا کہکر بلاو کہ میرے دل کے سکون اور خداوند متعال کی خوشنودی اور خوشی کا سبب ہے ۔
یہ روایت جہاں ایک باپ اور بیٹی حضرت رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم اور حضرت فاطمہ زہراء سلام الله علیها کے محبت آمیز رشتے کو بیان کرتی ہے وہیں حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی اطاعت کے درجہ اور منزل کو بیان کرتی ہے ، آپ نے اپنے بابا رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم سے از حد محبت کرنے کے باوجود ، خود کو مسلمانوں سے الگ نہیں سمجھا ، اور اس حوالہ سے کہ آپ ایک شاھزادی ہیں اپنے لئے کسی قسم کا امتیاز قائل نہیں ہوئیں ۔
حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی یہ سیرت ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ ہر دین ، مذھب ، مکتب اور گھرانا کامیاب ہونے کے لئے اطاعت کا نیاز مند ہے ، اگر معاشرہ میں اطاعت نہ ہو تو معاشرہ مشکلات اور ہرج و مرج سے روبرو ہوجائے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
قران کریم ، سورہ نور ، ایت ۶۳ ۔
Add new comment