ہر اطاعت کی بنیاد اور اساس علم و اگاہی پر استوار ہوتی ہے بغیر علم و اگاہی کے حقیقی اطاعت دشوار عمل ہے ، حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی وفات کے بعد جو مدینہ کی مسجد میں خطبہ ارشاد فرمایا ہے ، حضرت نے اس خطبہ میں مدینہ کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے تمام انصار و مہاجرین اور اصحاب کو خدا کی اطاعت کی دعوت ہے اور اسے علم سے جوڑا ہے ، حضرت (ع) نے قران کریم کی اس کریمہ کی تلاوت فرمائی اور کہا : « وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ کَذَلِکَ إِنَّمَا یَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ إِنَّ اللَّهَ عَزِیزٌ غَفُورٌ » انسان ، حیوان اور چوپایہ مختلف رنگ و نسل کے ہیں اور بندوں میں سے علماء خدا سے ڈرتے ہیں یقینا اللہ بخشنے والا اور مھربان ہے ۔ (۱)
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے اپنی اس تقریر میں اطاعت الھی اور علم کو ایک دوسرے کے قریب قرار دیا ، حضرت (ع) کے بیان کے مطابق خدا کی حقیقی اطاعت اس وقت ہی ممکن ہے جب انسان کو مکمل معرفت حاصل ہو ، لہذا اس مقام پر مناسب ہے کہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے نزدیک خدا کی اطاعت کا تذکرہ کرنے سے پہلے اپ (ع) کے نزدیک خدا کی معرفت کا تذکرہ کیا جائے ۔
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اسی خطبہ میں خداوند متعال کے سلسلہ میں فرماتی ہیں : «وَ أَشْهَدُ أَنَّ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اَللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِیکَ لَهُ، کَلِمَةٌ جُعِلَ اَلْإِخْلاَصُ تَأْوِیلَهَا، وَ ضُمِّنَ اَلْقُلُوبُ مَوْصُولَهَا، وَ أَنَارَ فِی اَلْفِکْرَةِ مَعْقُولُهَا، اَلْمُمْتَنِعُ مِنَ اَلْأَبْصَارِ رُؤْیَتُهُ، وَ مِنَ اَلْأَلْسُنِ صِفَتُهُ، وَ مِنَ اَلْأَوْهَامِ کَیْفِیَّتُهُ، اِبْتَدَعَ اَلْأَشْیَاءَ لاَ مِنْ شَیْءٍ کَانَ قَبْلَهَا، وَ أَنْشَأَهَا بِلاَ اِحْتِذَاءِ أَمْثِلَةٍ اِمْتَثَلَهَا، کَوَّنَهَا بِقُدْرَتِهِ، وَ ذَرَأَهَا بِمَشِیَّتِهِ، مِنْ غَیْرِ حَاجَةٍ مِنْهُ إِلَى تَکْوِینِهَا، وَ لاَ فَائِدَةٍ لَهُ فِی تَصْوِیرِهَا، إِلاَّ تَثْبِیتاً لِحِکْمَتِهِ، وَ تَنْبِیهاً عَلَى طَاعَتِهِ، وَ إِظْهَاراً لِقُدْرَتِهِ، وَ تَعَبُّداً لِبَرِیَّتِهِ، وَ إِعْزَازاً لِدَعْوَتِهِ » (۲)
میں گواہی دیتی ہوں کہ خدا کے سوا کوئی اور معبود نہیں اور اس کا کوئی شریک نہیں ، اس شھادت اور گواہی کی تفسیر ، اخلاص ہے ، آگاہ دلوں اور فکر و ںظر میں اس کے معانی واضح و روشن ہیں ، وہ خداوند جسے ظاھری انکھوں سے نہیں دیکھا جاسکتا ، زبانیں اس کی تعریف و توصیف سے عاجز اور وہم و خیال اسے سمجھنے سے ناتوان ہیں ۔ اس نے دنیا کی چیزوں کو بغیر کسی وسیلے کے پیدا کیا ، اس نے بغیر نمونہ اور سمپل کے اسے بنایا ، اس نے اپنی طاقت اور قدرت سے اسے خلق کیا ، اس نے اپنے ارادہ سے پیدا کیا جبکہ وہ ان کے پیدا کرنے کا ضرورت مند نہ تھا اور نہ ہی اس سے اسے کوئی فائدہ ملنے والا ہے جزء اس کے اس نے چاہا کہ اس کی حکمت محقق ہوجائے ، اس نے سبھی کو اپنی اطاعت و بندگی سے آگاہ کیا اور اپنی قدرت آشکار کیا ، اس نے بندگی کے تمام راستے کی تعلیم دی اور اپنی دعوت کو عزت عطا کیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: قران کریم ، سورہ فاطر ، ایت ۸ ۔
۲: خطبہ فدکیہ
Add new comment