(کسی چیز سے نہیں ڈرا)
میرے چلنے کے ساتھ کام کرنے کا اغاز ہوگیا ، ماں کے پیچھے پیچھے دوڑتا رہتا ، ننگے پاوں یا پلاسٹک کی چپل پہنے کہ جسے میری ماں نے پھیری کرنے والوں سے بھیڑ کے بال یا اون کے بدلے خریدے تھے ، بطخ کے اس چوزہ کی طرح جو اس کے پیچھے پیچھے دوڑتا رہتا ہے ، دن میں کئی بار زمین پر گرتا یا میرے پیروں میں کانٹے دھنس جاتے ، مستقل میرے پنجوں سے خون بہتا رہتا ، میری ماں سوئی سے اہستہ اہستہ ان کانٹوں کو نکالتیں اور دیسی دوا (اشترک) میرے زخموں پر لگاتیں ۔
میں موسم بہار آنے کا بہت عاشق تھا ہمارے یہاں سردی کا موسم بہت ٹھنڈا رہتا تھا ، پلاسٹک کا پیراہن کہ جسے ـ بشور و بپوش ۔ کہتے تھے اور ایران ـ زن کرامت ـ اس کی سلائی کرتی تھیں ، بغیر کسی کپڑے کے ہمارے جسم پر رہتا تھا ، بعض اوقات زیادہ ٹھنڈ پڑنے کی وجہ سے رات کی چادر یا ماں کی چادر کو اپنے بدن میں لپیٹ لیتے تھے ، میری ماں اپنا دوپٹا میرے سر پر لپیٹ دیتیں ، خود ان کے کہنے کے مطابق تاکہ ٹھنڈی ہوا ہمارے کانوں میں نہ گھسے ، کڑاکی کی سردی پڑنے کی وجہ سے ہمیشہ دانت کٹ کٹاتے رہتے تھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ
فارسی کتاب «از چیزی نمی ترسیدم» سے اقتباس
Add new comment