حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا نے اپنی عمر اخری ایام میں مدینہ کی خواتین کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ... اَما لَعَمْرى لَقَدْ لَقِحَتْ فَنَظِرَةٌ رَيْثَما تُنْتِجْ ثُمَّ احْتَلِبُوا مِلْأَ الْقَعْبِ دَما عَبيطا وَذِعافا مُبيدا، هُنالِكَ يَخْسَرُ الْمُبْطِلُونَ وَيَعْرِفُ التّالُونَ غِبَّ ما اَسَّسَ الْأَوَّلُونَ، ثُمَّ طيبُوا عَنْ دُنْياكُمْ اَنْفُسا وَاطْمَأِنُّـوا لِلْفِتْنَةِ جاشا وَاَبْشِرُوا بِسَيْفٍ صارِمٍ وَسَطْوَةَ مُعْتَدٍ غاشِمٍ وَبِهَرْجٍ شامِلٍ وَاِسْتِبْدادٍ مِنَ الظّالِمينَ، يَدَعُ فَيْئَكُمْ زَهيدا وَجَمْعَكُمْ حَصيدا فَياحَسْرَتا لَكُمْ وَاَنىّ بِكُمْ وَقَد عُمِّيَتْ عَلَيْكُمْ…
۔۔۔ میری جان کی قسم ! فساد اور تباہی کا نطفہ منعقد ہوچکا ہے اور اس کا نتیجہ دیکھنے کے لئے کچھ دن منتظر رہئے کہ دودھ کے بجائے خون اور جان لیوا زہر سے بھرے پیالے دوہیں گے [گاریں گے]، اس وقت گمراہ اور راستے سے بہکے افراد اپنے عمل کا نتیجہ دیکھیں گے اور مستقبل میں آنے والی نسلیں ان کے عمل کا نتیجہ دیکھیں گی ، پھر اپنے نفسوں کو دنیا کے ساتھ خوش رکھیئے اور فتنے کی گھڑی میں سکون محسوس کریئے لہذا کھنچی ہوئی تلواریں اور ظالم و ستمگروں کا تسلط تمہیں مبارک ہو کیوں کہ افراتفری اور غنڈہ گردی کا دور دورہ ہوگا جو تمہیں تمہارا مختصر سا حق دے کر پوری فصل خود کاٹیں گے [تمہیں لوٹیں گے]، کتنا افسوس اور حسرت کا مقام ہے ! مگر کیا کیا جاسکتا ہے اس حال میں کہ اج اندھوں کے مانند لے جائے گے ہو ۔
مختصر تشریح:
حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کا یہ کلام وہ سنہرے الفاظ ہیں جو مدینہ کے موجودہ حالات کو بیان کرنے کے ساتھ مستقبل اور آنے والے وقت کی خبر دے رہے ہیں ، اگر مسلمان دانشوروں کو زہراء مرضیہ کی شخصیت کو بخوبی سمجھنا اور پہچاننا ہو تو ان کے لئے بی بی دوعالم سلام اللہ علیہا کا یہی کلام کافی ہے ، اپ نے اپنی اس گفتگو میں جس طرح مدینہ کے حالات کا تجزیہ کیا ہے اور اس دور کے حالات اور خلفائے راشدین کے افکار و نظریات سے پردہ اٹھایا ہے نیز اس فتنہ کی وجہ سے مستقبل میں رونما ہونے والے حالات کی پیش گوئی کی ہے اور امت محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو با خبر کیا ہے یہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی علمی اور عصمتی شخصیت کا بیانگر ہے کہ اپ جس طرح مکمل طور سے مدینہ کے حالات سے باخبر ہیں اسی قدر مستقبل میں پیدا ہونے والے سے حالات سے بھی مطلع اور آگاہ ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
طبرسی ، احمد بن علی بن ابی طالب ، الاحتجاج (الإحْتِجاجُ عَلی أهْلِ اللّجاج ) ، ج 1، 148 ۔
Add new comment