خداوند متعال کی ذات گرامی شفیق اور مہربان ہے وہ ذرہ برابر بھی کسی پر ظلم نہیں کرتا لہذا جو بھی اس کے قہر اور غضب کا شکار ہوا ہے بلا شک و شبہہ وہ خود اپنی گناہوں کی وجہ سے مبتلی ہوا ہے کیوں کہ اس نے گناہ کر کے اپنے اوپر ظلم کیا ہے اور ظالم کو اس کے ظلم کی سزا دی گئی ہے ۔
خدا کا عذاب اور عتاب فقط اخرت ہی میں نہیں ہوگا ، ایسا نہیں ہے کہ انسان دنیا میں اپنے عمل کی سزا نہیں دیکھے گا اور نہیں پائے گا کیوں کہ انسان کبھی اتنا زیادہ گناہ یا گناہیں انجام دیتا ہے اور اس پر اصرارکرتا ہے کہ وہ اخرت کے علاوہ دنیا میں بھی الہی عتاب اور عذاب کا مستحق قرار پاتا ہے ۔
قران کریم نے سورہ عنکبوت کی ۴۰ ویں ایت شریفہ میں فرمایا : " فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنْبِهِ ۖ فَمِنْهُمْ مَنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَمِنْهُمْ مَنْ أَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ وَمِنْهُمْ مَنْ خَسَفْنَا بِهِ الْأَرْضَ وَمِنْهُمْ مَنْ أَغْرَقْنَا ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَٰكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ " سو ہم نے (ان میں سے) ہر ایک کو اس کے گناہ کے باعث پکڑ لیا، اور ان میں سے وہ (طبقہ بھی) تھا جس پر ہم نے پتھر برسانے والی آندھی بھیجی اوران میں سے وہ (طبقہ بھی) تھا جسے دہشت ناک آواز نے آپکڑا اور ان میں سے وہ (طبقہ بھی) تھا جسے ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے (ایک) وہ (طبقہ بھی) تھا جسے ہم نے غرق کر دیا اور ہرگز ایسا نہ تھا کہ اللہ ان پر ظلم کرے بلکہ وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے ۔
یہ ایت کریمہ گناہگاروں کے لئے ایک حقیقت کی بیانگر ہے کہ ان کی گناہیں ان کے لئے دردناک اور مومنین اور متقین کے لئے ان کی نیک اعمالی بشارت ہیں ۔
لہذا بہتر ہے کہ ہم گناہیں انجام دے کر خود پر اور دوسروں پر ظالم نہ کریں تاکہ محمد و ال و محمد صلی اللہ و علیہ و الہ و سلم کے صدقہ میں دنیا اور اخرت دونوں میں سعادت مند اور کامیاب رہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
۱: قران کریم ، سورہ عنکبوت ، ایت ۴۰ ۔
Add new comment