دین اسلام کے احکام اور اعمال میں کبھی انفرادی پہلو موجود ہے تو کبھی ان کے اندر سماجی پہلو نمایاں ہے ، جب تک اسلامی احکام میں انفرادی پہلو موجود رہے اس کی رعایت اور اس پر عمل کرنے کے لئے کسی پر دباو نہیں ڈالا جاسکتا اور کسی پر اجبار نہیں کیا جاسکتا مگر جیسے ہی وہ حکم سماجی اور اجتماعی صورت اختیار کرلے اس کی پیروی اور اطاعت یعنی اس کی مراعات سب پر لازم و ضروری ہوجاتی ہے ، جیسے روزہ خواری ، شراب خواری وغیرہ وغیرہ ، جب تک انسان انفرادی دائرہ میں یعنی اگر کوئی دوسروں کی نگاہوں سے چھپ چپھا کر ، تنہائی میں بیٹھ کر روزہ خوری کرے یا شراب نوشی کرے تو اسے اس عمل کو انجام نہ دینے کے لئے مجبور نہیں کیا جاسکتا مگر جب یہ عمل سماجی عنوان اپنالے اور کوئی اسے ملاء عام میں انجام دینا چاہے تو اس عمل پر روک لگانا ضروری و لازمی ہے ۔
حجاب اور پردہ کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے کہ جب تک انسان انفرادی دائرہ اور احاطہ میں موجود ہو اس پر پردہ لازم و ضروری نہیں ہے مگر یہی پردہ جیسے ہی سماجی اور اجتماعی رنگ و روپ اپنا لے تو اس کی مراعات اور اسلام کے اس حکم پر عمل سب ہر کسی کی ذمہ داری اور وظیفہ ہے کیوں کہ اس کی رعایت نہ کرنے سے معاشرہ میں برائیاں پھیل جائیں گی ، گھر اور گھرانے پر منفی اور غلط اثرات پڑیں گے اور معاشرہ میں دیگر مشکلات سر ابھاریں گی ، دین اسلام نے بھی کسی کو یہ حق نہیں دیا ہے کہ وہ ازادی کے بہانے معاشرہ اور گھرانے کے پر امن ماحول کو مٹی میں ملا دے کہ جو بہت ساری اخلاقی اور سماجی مشکلات کا جڑ اور بنیاد بنے ۔
جاری ہے ۔۔۔
Add new comment